aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ابوالعلائیہ کا سلسلہ اصل میں نقشبندیہ سلسلہ کی ہی شاخ ہے۔ سرزمین ہند میں نقشبندیہ سلسلہ کی دو شاخیں بہت مشہور ہوئیں ایک سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ اور دوسری سلسلہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ۔ موخر الذکر شاخ کے بانی حضرت سیدنا امیر ابوالعلا ہیں۔ امیر ابو العلاء جہانگیر بادشاہ کے یہاں امارت کے عہدے پر فائز تھے چونکہ وہ ابتدا سے ہی تصوف کی طرف مائل تھے اس لئے انہوں نے جلد ہی جہانگیری دربار کو الودع کہا اور ایک خواب کی تکمیل کے لئے ورانہ ہو گئے۔ اکبر آباد سے پہلے دہلی آئے اور بختیار کاکی اور نظام الدین اولیا کی مزارات پر فاتحہ خوانی کی اور پھر خواجہ خواجگان معین الدین چشتی کے شہر اجمیر کی طرف روانہ ہوئے جہاں انہوں نے مزار پر رہ کر اپنے معنوی پیر سے فیض یاب ہوتے رہے اور خواجہ صاحب کے اشارہ سے انہیں حکم ملا کہ وہ امیر عبد اللہ کے ہاتھوں پر بیعت ہو جائیں جو کہ ایک نقشبندی صوفی تھے۔ مگر انہوں نے انہیں سمع کی اجازت دے دی اور کہا کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا بھی ورد کرتے رہیں۔ زیر نظر تذکرہ اسی سلسلہ اور اس کے بزرگان پر مشتمل ہے۔ اس تذکرہ کے متعدد حصے ہیں، جن میں الگ الگ ابوالعلائیہ سلسلے کے بزرگان کی خدمت و اجتہاد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ زیر مطالعہ اس تذکرہ کا نواں حصہ ہے جو اس سلسلے کے اہم بزرگ آغا محمد داود قادری چشتی کے تفصیلی حالات زندگی اور آپ کے جہد مسلسل، اقوال و کمالات پر مبنی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets