aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تذکرۃ الاولیاء فارسی زبان کی معروف تصنیف ہے جو صوفیہ کے ذکر پر محمول ہے۔ شیخ فرید الدین عطار فارسی زبان کے معروف شاعر و نثر نگار اور صوفی ہیں جنہوں نے تصوف کے موضوع پر یہ بہترین کتاب لکھی۔ یہ تذکرہ امام جعفر صادق کے ذکر سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد اویس قرنی، حسن بصری، مالک بن دینار، رابعہ بصری، ابراہیم ادہم، بشر حافی، ذا النون مصری، بایزید بسطامی اور جنید بغدادی جیسے بڑے بڑے صوفیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور یہاں پر اس کا پہلا حصہ مکمل ہوتا ہے پھر دوسرے حصہ میں عمرو بن عثمان مکی، ابو سعید خراز، ابن عطاء، سمنون محب، حسین منصور حلاج وغیرہ کا ذکر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ اسی ضمن میں صوفیوں کے اخلاق، اقوال، اوصاف، عبادات اور عادات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کار آمد نصیحتیں، دلربا حکایتیں اور نصیحت آموز واقعات سلیس فارسی نثر میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ اپنے عہد سے آج تک اپنی تمام تر شہرت کے ساتھ معروف ہے اور اس کے پڑھنے والوں کی تعداد کبھی کم نہ ہوئی۔ یہ کتاب تیرھویں صدی عیسوی کے شروع میں تحریر کی گئی تھی۔
شیخ فرید الدین عطار ایران کے شہر نیشا پور میں 1145ء یا 1146ء میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام ابو حمید ابن ابو بکر ابراہیم تھا مگر وہ فرید الدین عطار کے نام سے ہی پہچانے گئے، وہ پیشے سے حکیم تھے ۔ بعض کا کہنا ہے کہ آپ عطروں کاروبار کرتےتھے، عطار ایک فارسی نژاد شاعر، مصنف اور صوفی بزرگ تھے۔ شہر نیشا پور میں عطار کا مطب کافی مشہور تھا، لوگ ان کے پاس ظاہری اور باطنی دونوں امراض کے لئے آیا کرتے تھے، بغداد، بصرہ، دمشق، ترکستان اور خوارزم وغیرہ تک ان کی شہرت تھی، عطار ایک اللہ والے اور بزرگوں اور صوفیوں سے خاصی محبت کا اظہار کرنے والے انسان تھے، انہوں نے اس سلسلے میں ایک عمدہ کتاب تذکرۃ الاولیا بھی مرتب کی ہے، ان کا انتقال اپریل 1221ء میں ہوا، مزار نیشاپور میں مرجع خلائق ہے۔