aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو کے متعلق ہمیشہ سے کہا گیا ہے کہ اس میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا خمیر ہے ۔ مسلمانوں کے ہندوستان میں داخل ہونے سے اور ہندوستانی باشندوں کا مسلمانوں کے ساتھ گھل مل جانے سے جو مشتر کہ زبان وجود میں آئی وہ ایک زمانہ تک ریختہ تھی جو بعد میں چل کر اردو کا نام اختیار کرتی ہے ، نظریات الگ الگ ہوسکتے ہیں لیکن اس نظریہ کا بھی کوئی منکر نہیں ہے ۔ عوام سے حکمراں لوگوں کا میل جول بڑھا، اظہار کے لیے الفاظ کا تبادلہ ہونے لگا اور نئے الفاظ بھی وجود میں آنے لگے تویہ زبان عوامی ہونے لگی جس میں ہرطبقہ کی نمائندگی نظرآتی ہے ۔ جب اس زبان میں ادب پروان چڑھنے لگا تو ہرذی علم نے اپنی مقدور بھر کوشش سے اس میں اضافہ کیا ۔ جب ماضی میں جاکر ادیبوں کی فہر ست کو کھنگالیں گے توبے شمار ایسے نام آپ کو ملیں گے جن کا تعاون اس زبان کے لیے رہا ہے ۔ اس زبان میں انہوں نے مسلم تہذیب کوہی نہیں لکھا ہے بلکہ اپنی تہذیب کو لکھا ہے اپنا مذہب اس میں پیش کیا ہے ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جتنے بھی تذکرہ لکھے گئے ان میں سیکڑوں ایسے نام ملتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو ہمیشہ سے مشترکہ تہذیب کی نمائندہ رہی ہے اور رہے گی ۔ یہ کتاب مکمل طور پر اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب پر معنون ہے جس میں بیس سے زائد مضامین ہیں جو کئی موضوعات کو احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free