aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غزل کو کسی نے اردو شاعری کی آبرو کہا ہے تو کسی نے اردو غزل کی گردن بے تکلف مار دینے کی بات کہی ہے ۔ کیوں کہ غزل کی صنف اگر ایک طرف حسن بے پناہ رکھتی ہے تو دوسری طرف کہیں نہ کہیں اس کی چلی آ رہی روایت میں کجی بھی نظر آتی ہے۔ غزل خالص فارسی صنف سخن ہے جو قصیدے کی تشبیب سے نکل کر حسن بیان کے نئے زاویوں کے ساتھ فارسی شاعری میں جلوہ افروز ہوئی ۔مگر فارسی شاعری کا مزاج پہلے سے ہی شاہد بازی کاتھا اور یہ موضوع غزل سے بہتر کہاں ادا ہو سکتا تھا اس لئے فارسی غزل نے بھی وہی روش اپنا لی جو اس سے قبل چلی آ رہی تھی۔فارسی کا ایک عظیم شاعر دقیقی طوسی جس نے شاہنامہ فردوسی کی گویا بنیاد رکھی تھی اسی شاہد بازی کے چلتے اپنے غلام کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔اردو جس نے فارسی شاعری سے ہی خوشہ چینی کی تھی اور اس کے ابتدائی ادبا فارسی کے ہی لوگ تھے اس لئے اردو کو وہ لوگ اس سے بچا نہ پائے۔اس طرح سے لڑکوں کے حسن و جمال پر یہاں بھی خوب لکھا گیااور جس طرح سے فارسی شاعری کے صوفی شعرا اس سے نہ بچ سکے اسی طرح اردو شعرا بھی اپنا دامن اس سے نہ بچا سکےجس کے نتیجے میں مجاز لکھنوی سے قبل اردو شاعری میں اکثر حسن و عشق کی جو باتیں ہوئی ہیں وہ شاہد بازی کے حوالےسے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ گو اس کو مجاز کہہ کر بچا جا سکتا ہے مگر حقیقت کے ہوتے ہوئے اتنا مجاز کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملے گا۔یہ کتاب بھی اردو میں شاہد بازی کے موضوعات پر شاعری کرنے والے شعرا کے کلام کا جائزہ اور اس کی روایت پر محمول ہے۔ کتا ب میں اردو غزل کہنے والے شعرا کے کلام سے شاہد بازی کی مثالیں دی گئی ہیں ۔ اردو غزل کو نئے زاویہ سے اور بھی زیادہ گہرائی سے دیکھا جانا چاہئے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free