aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
طنز و مزاح ادب کا ضروری حصہ ہے۔اس کے بغیر کسی زبان کےادب کا تصور ہی ممکن نہیں۔ زندگی کی شدت اور سختیوں کوگوارہ بنانے کےلیے زندہ دلی،شگفتگی اور شوخی کی راہ کھلی رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح معاشرہ کی کجیوں اور بوالعجبیوں پر طنز کے ذریعےہی کارگر وارکیا جاسکتاہے ۔اردوادب کےجدیددور میں طنزیہ ومزاحیہ شاعری کاسہرا،اودھ پنچ کےسرجاتاہے،اودھ پنچ نےطنزومزاح کےذریعے ہندوستانیوں کی ہر بے ڈھنگی چال پر تیر چلائے اور انگریزوں کی حمایت میں بولنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا،اس کتاب میں اردو کے چار مزاحیہ شاعروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں ظریف لکھنوی جو کہ اودھ پنچ کے کے پہلے دور کے اہم شاعر میں سے ہیں ان کا تذکرہ ہے، اس کے علاوہ شوکت تھانوی کا بھی تذکرہ کیا گیا، شوکت تھانوی کا تعلق گرچہ اودھ پنچ سے نہیں تھا تاہم انھوں نے اودھ پنچ کےمقابلے میں"سر پنچ"جاری کیاتھا،مزاحیہ ادب میں سر پنچ کادرجہ اودھ پنچ کےبعدآتا ہے، شوکت تھانوی کے علاوہ ان کےمعاصرشاعرسیدمحمدجعفری کوبھی اس کتاب میں جگہ دی گئی،سیدجعفری ،غالب اور اکبر کے بعد اردو کے سب سے اہم اور محترم طنزیہ و مزاحیہ شاعر مانے جاتے ہیں اور چوتھے مزاحیہ شاعر مجید لاہوری ہیں جو اس کتاب کی زینت ہیں، مجید لاہوری کی شاعری عوامی ظرافت اورصحافتی مزاح کی ایک عمدہ مثال ہے، مختصر یہ کہ زیر نظر کتاب طنز و مزاح کے موضوع پر ایک ہنستی کھلکھلاتی کتاب ہے۔
Read the author's other books here.