aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو زبان کےتشکیلی عہدمیں صوفیاء کی جو لسانی خدمات رہی ہیں،اس سے ہر گزانکار نہیں کیا جا سکتا،صوفیاء کی جو لسانی خدمات ہیں اس نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے کونے تک پھیلایا اور عوام کو اس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان کی صورت اختیار کرتی چلی گئی،چنانچہ جب مسلم درویش ہندوستان کے ان علاقوں میں پہنچے جہاں لوگ اسلام کے نام سے بھی واقف نہیں تھے،ان درویشوں نےتعلیم و تلقین کا سلسلہ شروع کیا، توعوامی بولی بھی اختیار کرنی پڑی،درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانےکےلئےاردوالفاظ کاسہارالیااورقربت و اپنائیت کا جذبہ پیدا کیا،سلسلہ چشتیہ کے پیشوا خواجہ معین الدین چشتی نےملتان میں قیام کے دوران مقامی زبان میں مہارت حاصل کی،وہ رشد و ہدایت کا درس مقامی ہندوی زبان میں دیتے تھے، حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر نے پنجاب کے شہر پاک پٹن سے اردو میں شعر لکھنے شروع کئے۔اس طرح کے صوفیاء کرام نے اردو کی ابتدائی نشو و نما میں جو خدمات انجام دی ہیں، مولوی عبد الحق نے اس کتاب میں انھیں صوفیاء کا تذکرہ بڑی تحقیقی کے ساتھ کیا ہے، اس کے لئے مولوی صاحب نے خواجہ معین الدین چشتی سے لیکر بابا شاہ حسینی معروف بہ پیر بادشاہ کی ادبی خدمات تک کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ایک نادر موضوع ہے جس میں اردو زبان کی ترویج و ترقی میں صوفیاء کرام کےکردار پر بحث کی گئی ہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کی ترقی کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا۔ ان کی زبان کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اردو کی فکر سے خالی ہو۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف ہی ہے کہ وہ ہر جگہ بابائے اردو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
عبدالحق 1870ء میں ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے محمڈن کالج علی گڑھ بھیجے گئے۔ یہاں ا کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ سر سید تک رسائی تھی۔ اس ذات گرامی سے براہ راست فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ یہیں مولانا حالیؔ اور محسن الملک سے بھی نیاز حاصل ہوا۔ سرسید کے صاحب زادے جسٹس محمود سے بھی ملاقات تھی۔ سرسید نے تصنیف و تالیف کا کچھ کام عبدالحق کے سپرد بھی کیا اس طرح لکھنے پڑھنے کی پہلی تربیت اسی مرد بزرگ کے ہاتھوں ہوئی۔
تعلیم سے فارغ ہو کر عبدالحق تلاش معاش میں حیدرآباد چلے گئے اور ایک اسکول میں مدرس کی ملازمت قبول کر لی۔ آخر ترقی پاکر مدارس کے انسپکٹر مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں انجمن ترقی اردو کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ 1917ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ ترجمہ سے مختصر عرصے منسلک رہے۔ آخر اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ اب انہیں انجمن ترقی اردو کو مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر ہوگئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد دہلی آگئے اور اردو نیز انجمن ترقی اردو کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ ملک تقسیم ہوگیا تو کراچی چلے گئے۔ اور وہاں بھی اردو کے فروغ کی کوشش میں لگے رہے۔ آخر وہیں 1961ء میں وفات پائی۔ بابائے اردو کی خدمت کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے 1937ء میں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ کارنامہ قابل قدر ہے کہ قدیم اردو ادب کا جو سرمایہ مخطوطات کی شکل میں صندوقچوں اور الماریوں میں بند تھا اور جس کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ تھا مولوی صاحب نے اسے ترتیب دے کر شائع کیا اور برباد ہونے سے بچا لیا۔ ان کتابوں پر مولوی صاحب نے مقدمے لکھے، ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ مصنفین کے حالات زندگی دریافت کر کے ہم تک پہنچائے، ان تصانیف کے عہد کی خصوصیات واضح کیں اور اردو تنقید کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔
چھان بین کے بعد بہت سی غلط فہمیوں کو رد کیا مثلاً اس خیال کی تردید کی کہ میرامن کی باغ و بہار فارسی کے قصہ چہار دردیش کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے دلیلوں سے ثابت کردیا کہ اس کا ماخذ لوطرز مرصع ہے۔ مولوی صاحب کی زبان سادہ و سلیس ہوتی ہے جیسی تحقیق کے لیے ضروری ہے۔
مقدمات عبدالحق، خطبات عبدالحق، تنقیدات عبدالحق ان سے یادگار ہیں۔ فرہنگ، لغت اور اصطلاحات پر بھی انہوں نے کام کیا۔ ’’چند ہم عصر‘‘ ان کی مقبول کتاب ہے جس میں مختلف شخصیتوں پر مضمون شامل ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets