aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو کی کہانی اردو کی زبان، ایک مختصر کتابچہ ہے جس میں عمر انصاری نے تقریبا آٹھ صٖحات پر مشتمل ایسے اشعار منظوم ہیں جن اشعار میں اردو کی گنگا جمنی تہذیب اور اردو زبان کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے مزید یہ ہندوستانی تہذیب میں اردو کا جو کردار رہا ہے، اس کو بیان کیا گیاہے،ان اشعار کے ذریعہ اس وقت عمر انصاری نےاترپردیش کے وزیر اعلی سے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دئے جانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کی وجہ سے یہ اشعار معرض وجود میں آئے تھے۔
نام محمد عمر انصاری اور تخلص عمر تھا۔۲۳؍ستمبر ۱۹۱۲ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے (آنرز) کیا۔ انھوں نے کافی تعداد میں افسانے، ڈرامے ،تنقیدی مضامین اور انشائیے لکھے ہیں جو مختلف کتابوں اور ملک کے مقتدر رسائل واخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہ کئی رسائل اور اخبار کے مدیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ فلم ’’بابل‘‘ کے کنٹرولر آف پروڈکشن رہے۔ فلم’’سوہنی مہیوال ‘‘ پاکستان(لاہور) کے گانے لکھے۔ شاعری کا آغاز۱۹۳۰ء سے ہوا۔ تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ مندرجہ ذیل مجموعہ ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں۔’’جرس کارواں‘‘، ’’بازگشت‘‘، ’’ساز بے خودی‘‘، ’’صنم کدہ‘‘، ’’ترانۂ نعت‘‘، ’’حرف ناتمام‘‘، ’’نقش دوام‘‘، ’’کشید جاں‘‘۔ ان کی کئی کتابوں پر اعزازات اور انعامات مل چکے ہیں۔ ۱۹۸۵ میں ا ن کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں اترپردیش اردو اکادمی نے اپنا سب سے بڑا مبلغ دس ہزار روپے کا ایوارڈ دیا۔ وہ ۱۸؍نومبر ۲۰۰۵ء کو لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:41