aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو مثنوی کے جو قدیم ترین نمونے دستیاب ہیں وہ حضرت بابا فرید گنج شکر اور دیگر صوفیا سے منسوب ہیں۔اس سلسلے میں قطبن اور شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔حضرت گیسو دراز، شاہ میراں جی شمس العشاق اور شاہ برہان الدین جانم وغیرہ کے نام اردو مثنوی کے باب میں اہمیت کے حامل ہیں۔اسی طرح مقیمی کی"چندر بدن و مہیار"امین کی"بہرام و حسن بانو"۔ملک خشنود کی "ہشت بہشت" اور"یوسف زلیخا"نصرتی کی "علی نامہ"وجہی کی "قطب مشتری"،ابن نشاطی کی"پھول بن"،غواصی کی"سیف الملوک و بدیع الجمال"اور"طوطی نامہ"طبعی کی "بہرام و گل اندام"،میر حسن کی"سحر البیان"اورپنڈت دیا شنکر نسیم کی"گلزار نسیم"وغیرہ نہایت اہم ہیں. زیر نظر کتاب میں اردو مثنوی کی ابتدا سے لیکرترقی پسند تک مثنویوں میں پیش آنے والی تبدیلی یا ترقی کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے، مثنوی کے ارتقائی سفرمیں پیش آنے والےرجحانات و خصوصیات کا تاریخی جائزہ لیا گیا ہے چنانچہ ہر عہد کی خصوصیات اور رجحانات کو واضح اندازمیں بیان کیا گیا ہے جس سےقاری کو ہر عہد کے حالات و تقاضے اور اس عہد میں مثنوی کی خصوصیات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free