aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
خودنوشت میں مصنف اپنی ذات کو محور بنا کر اپنے عہد کے سماجی سیاسی اور معاشرتی حالات کو قلمبند کر تا ہے ۔ اس میں مصنف خود ہی مجرم، گواہ اور جج ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خود نوشت سے قاری دیانت دار ی کی بہت ہی زیادہ توقع کرتا ہے ۔ اگر مصنف کسی حادثہ کو اپنے زاویہ سے دیکھتا ہے اور کسی دوسرے زاویہ کو مکمل طور پر درکنار کر جا تا ہے تو پھر وہ قاری کی عدالت میں ماخوذہوتا ہے ۔ سوانح عمریاں عموماً بڑے لوگوں کی پڑھی جاتی ہیں جن سے ایک طبقہ متاثر ہوتا ہے ، اس میں ان کے شیدائی ان کی بے پناہ جدو جہد یا پھر ان کی زندگی کے ان کہے واقعات سے روشنا س ہوناچاہتے ہیں ۔ خود نوشت پڑھنے کا رجحان اسلوب سے بھی ہے جیسے یادو ں کی بارات و دیگر ۔ اردو میں خود وشت کی عمر بہت ہی قلیل ہے بلکہ جب سے رواں نثر کی شروعات ہوتی ہے تب سے ہی اردو میں خودنوشت کا رجحان بھی ہوتا ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں خود نوشت کا فنی مفہوم اور خصوصیات کا ذکر ہے ۔ دوسرے میں عالمی ادب میں خودنوشت کی روایت پر گفتگو ہے ۔ تیسر ے میں اردو میں آپ بیتی کے جتنے بھی مختلف اظہا ر ہیں ان کو شمار کیاگیا ہے ۔ چوتھے باب میں اردو خود نوشت کی روایت اور فن پر گفتگو ہے ۔ خود نوشت پر ریسرچ کرنے والوں کے لیے یہ عمدہ اورمعاون کتاب ہوسکتی ہے ۔
صبیحہ انور مشہورومعروف ادیبہ، محقق مترجم اور سماجی کارکن ہیں۔ مشہور محقق، ادیب و طنزو مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی کی بیٹی ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں امتیاز کے ساتھ ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ لکھنو کے کرامت حسین پوسٹ گریجویٹ کالج میں18سال پرنسپل اور 28 سال صدر شعبۂ اردو رہیں۔ فخرالدین میموریل کمیٹی، اردو اکادمی اور دیگر متعدد تعلیمی اداروں، بہبود نسواں اور سماجی یکجہتی سے متعلق تنظیموں کی رکن ہیں۔ ان کی تعلیمی اور ادبی خدمات کے لئے یوپی حکومت نے انھیں 2016 میں ’’یش بھارتی‘‘ اور ’’یو پی رتن‘‘ جیسے اہم اعزازات سے نوازا ہے۔ اس کے عللاوہ مزید دس ایوارڈس دیگر اداروں کی طرف سے دئے گئے ہیں جن میں لائنز کلب اور اردو اکادمی شامل ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پراکثر ان کے انٹرویو اور مضامین نشر ہوتے ہیں۔ سیمناروں اور کانفرنسوں میں مقالے پیش کرتی ہیں۔ ان کی کئ کتابیں شائع ہو چکی ہیں: ’ورق ورق زندگی‘۔ ’خواب درخواب‘(افسانوی مجموعے) ’ہم نے دیکھا استنبول‘ (سفرنامہ)۔ ’فدائے لکھنؤ‘( پروین طلحہ کے انگریزی افسانوں کا ترجمہ)۔ ’اردو میں خود نوشت سوانح‘۔ ’باقی سوالات‘،انٹرویوز کا تنقیدی مطالعہ۔ ’عابد سہیل‘مونوگراف(تحقیق وتنقید)۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets