aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ہر زبان و ادب میں کچھ نہ کچھ ایسی تحریکیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ایک پورا کا پورا ادبی پس منظر بدل جاتا ہے ۔ ان تحریکوں کے کچھ اسباب ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ وجود پزیر ہوتی ہیں ۔ جب ایک تحریک آتی ہے تو دوسری زوال پزیر ہونے لگتی ہے یا اس کا اثر کم ہو جاتا ہے ۔ ہر تحریک کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے جو اپنے مقصد کو پورے ہونے کے ساتھ ساتھ ماند پڑنے لگی ہیں ۔ علی گڑھ تحریک نے اردو ادب میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا جس انقلاب کو ترقی پسند تحریک نے بالکل پست کر دیا ۔ ترقی پسند تحریک بھی انقلابی نعروں کے ساتھ اٹھی اور بہت جلد ہی اس نے پورے ادبی حلقے کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا۔ یہ کتاب اسی ترقی پسند تحریک پر مبنی ہے۔ کتاب موٹے طور پر تین حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلا حصہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک پر محیط ہے جس میں تحریک کا آغاز ، ارتقاء انجمن اور ان مصنفین کے بارے میں ہے جو پیش پیش تھے ۔ دوسرا حصہ ترقی پسند ادبی سرمائے کا جائزہ جس میں اس عہد کے شعرا ، افسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار ، طنز و مزاح ، تراجم وغیرہ کا ذکر ہے ۔ کتاب کا تیسرا جز ترقی پسند تنقید پر مبنی ہے ۔
Noted Urdu Poet and literary critic Khaleel-ur-Rahman Azmi was born at Sedhan Sultanpur. His father Maulana Mohammad Shafi was a very pious man. Khaleel did his doctorate (Ph.D.) in Urdu from Aligarh Muslim University in 1957. He joined Aligarh Muslim University as a lecturer in the Urdu Department and worked there all his life. He died in 1978. He started writing since his early school days and later associated himself with the Progressive Writers' Movement of Urdu literature. He was imprisoned in 1949 for his political views. His foremost publications include Kagzi Pairhan (1953), Naya Ahad Nama (1965) Fikr-o-Fan (1956) and Taraqqi Pasand Adabi Tahrik (1972).
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets