aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آج ہم اگر اردو صحافت کی بات کریں تو ہمارے سامنے اس کا شاندار ماضی اور قابل فخر ورثہ ہوگا ۔لیکن اگر حال کی بات کی جائے تو چند موٹی موٹی باتوں کے بعد ہماری زبان لڑکھڑانے لگتی ہے کیونکہ حال میں اردو صحافت بہت ہی نازک دور سے گزر رہی ہے اور کوئی بھی قابل قدر اخبار ایسانہیں ہے جس میں سیاست کی پالیسیوں اور اس کے مسائل پر لکھا جارہا ہو ۔ ملت کے مسائل پر خوب تحریریں چھپتی ہیں لیکن ملکی مسائل پر بہت ہی کم ۔ موجودہ دور کی اردو صحافت مسلم مسائل پر زیادہ توجہ دیتی ہے ایک طریقہ سے اصلاح امت کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں ۔ جدید صحافت کبھی ماضی کی جانب جھانکتی بھی نہیں ہے کہ وہاں سے کچھ اخذکرلیا جائے۔ اس تناظر میں یہ کتاب بہت ہی عمدہ ہے جس میں ماضی کی تمام کڑیوں کو جمع کیا گیا ہے۔ اردو اخبارات کو تین عہد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول انیسویں صدی ، دوم بیسویں صدی کی ابتداء سے تقسیم ہندتک۔ سو تقسیم ہند کے بعد کے اخبارات۔ شروع کے دو عہد میں اخبارات جدو جہد آزادی سے لبریز تھے وہاں ان کا مقصد صاف اور واضح تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد حالات بالکل بدل گئے جس کی مکمل روداد آپ کو اس کتاب میں پڑھنے کو ملے گی ۔اس کتاب میں صرف اخبارات کا ذکر نہیں ہے بلکہ رسائل و جرائد پر بھی گفتگو ہے ساتھ ہی چند مخصوص ومشہور صحافیوں کے خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے ان تمام نکات کے علاوہ اس کتاب میں کئی دیگر اہم موضوعات پر تحریریں ہیں ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets