aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کلیم الدین احمد کی یہ کتاب 1942ء میں جب منظر عام پر آئی تو کافی ہنگامہ خیز ثابت ہوئی، کیونکہ اس کے آغاز میں ہی انہوں نے لکھا ہے ”اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ یہ اقلیدس کا خیالی نکتہ ہے یا معشوق کی موہوم کمر۔" اور پھر اس موہوم کمر کی تلاش میں انہوں نے تذکروں سے لے کر تنقیدی کتابوں اور تبصروں تک کو کھنگال ڈالا اور پھر یہ حکم صادر کر دیا کہ اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس کتاب کے ذریعہ تنقید کی راہیں متعین کیں، بلکہ انہوں نے اردو تنقید کو ایک نئی روشنی عطا کی اور اردو تنقید کو اس لائق بنایا کہ وہ براہِ راست اور دو ٹوک انداز میں بات کرنے لگی، اس کتاب کے مطالعہ سے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہوتی ہے، مزید سخن فہمی کے آداب، ادبی بصیرت، حسن، سنجیدگی، اور ادبی قدروں کی تلاش کے ساتھ ساتھ ادب کی زندگی میں اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free