aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کلیم الدین احمد کی یہ کتاب 1942ء میں جب منظر عام پر آئی تو کافی ہنگامہ خیز ثابت ہوئی، کیونکہ اس کے آغاز میں ہی انہوں نے لکھا ہے ”اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ یہ اقلیدس کا خیالی نکتہ ہے یا معشوق کی موہوم کمر۔" اور پھر اس موہوم کمر کی تلاش میں انہوں نے تذکروں سے لے کر تنقیدی کتابوں اور تبصروں تک کو کھنگال ڈالا اور پھر یہ حکم صادر کر دیا کہ اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس کتاب کے ذریعہ تنقید کی راہیں متعین کیں، بلکہ انہوں نے اردو تنقید کو ایک نئی روشنی عطا کی اور اردو تنقید کو اس لائق بنایا کہ وہ براہِ راست اور دو ٹوک انداز میں بات کرنے لگی، اس کتاب کے مطالعہ سے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہوتی ہے، مزید سخن فہمی کے آداب، ادبی بصیرت، حسن، سنجیدگی، اور ادبی قدروں کی تلاش کے ساتھ ساتھ ادب کی زندگی میں اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان کا اصل نام رحیم الدین احمد تھا (رحمو کہلاتے تھے) لیکن جب انہیں اسکول میں داخل کرایا گیا تو اسے بدل کر کلیم الدین احمد کر دیا گیا۔ انہوں نے اس کی تفصیل اپنی کتاب ’’اپنی تلاش میں‘‘ جلد اوّل (کلچرل اکادمی، گیا) میں متعدد صفحات پر درج کی ہیں۔ ان کی خودنوشت ’’اپنی تلاش میں‘‘ کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن سے ان کے حالات کا پورا پورا احاطہ ہوجاتا ہے۔ میں نہایت اختصار سے چند ضروری امور قلمبند کرتا ہوں جن کا مآخذ کلیم الدین کی خود نوشت ہی ہے۔
کلیم الدین کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ ان کے والد عظیم الدین احمد ایک ذی علم حیثیت کے مالک تھے۔ جن کے اثرات ان پر دوررس رہے ہیں۔ انہوں نے ہی ان کی تعلیم میں ذاتی دلچسپی لی۔ ویسے ان کا خانوادہ ذی علم تھا۔ ان کے والد عظیم الدین احمد اپنے وقت کے ذی وقار شاعر تھے۔ ان کی تعلیم بھی برطانیہ میں ہوئی اور پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو فارسی کے صدر بھی رہے تھے اور یونیورسٹی میں ان کا ایک خاص مقام تھا۔ ان کے دادا شاہ واعظ الدین احمد بھی ذی علم شخص تھے ان کی دادی کے والد حکیم عبدالحمید پریشاں عظیم آباد کے ایک منفرد شاعر سمجھے جاتے تھے۔
گھریلو تعلیم کے بعد ان کا داخلہ 1921 میں محمڈن اینگلو عربک اسکول، پٹنہ سٹی میں ہوا۔ ابتدا ہی سے کلیم الدین احمد بہت کم سخن رہے تھے اور غالب کی دلچسپی صرف مطالعے سے رہی۔ 1924 میں انہوں نے میٹرک پاس کیا لیکن سیکنڈ ڈویژن آیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1926 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان بھی سیکنڈ ڈویژن ہی سے پاس کیا۔ 1928 میں بی۔ اے۔ میں انگریزی آنرس لیا اور امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ ایم۔ اے۔ کے آخری سال میں تھے کہ انہیں اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لئے لندن جانے کا سرکاری وظیفہ مل گیا۔ لہٰذا 1930 میں وہ لندن کے لئے روانہ ہوگئے اور ٹرائی پوس کی ڈگری کے حصول کے بعد 1933 میں واپس آئے۔ پھر وہ پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی سے وابستہ ہوگئے۔
لندن جانے سے پہلے کلیم الدین احمد کی شادی عبدالحفیظ کی بیٹی صفیہ بیگم سے ہوچکی تھی۔ جنہیں وہ حنی کہا کرتے تھے۔ ان کا انتقال ہوگیا تو کلیم الدین احمد نے 1937 میں اپنی بڑی سالی زہرہ بیگم سے شادی کر لی۔ 1949 میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ 1939 میں انہوں نے اپنے والد عظیم الدین احمد کا شعری مجموعہ ’’گل نغمہ‘‘ شائع کیا۔ 1940 میں ان کی کتاب ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ اور 1942 میں ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ شائع ہوئی۔ 1944 میں ’’اردو زبان اور فن داستان گوئی‘‘ منظر عام پر آئی۔ 1977 میں وہ بہار سرکار میں ڈپٹی ڈی پی آئی ہوگئے۔ 1978 میں سائیکو انالائسس اینڈ لٹریری کریٹی سزم‘‘ شائع کی۔ 1952 میں پٹنہ کالج، پٹنہ کے پرنسپل ہوگئے اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس بھی۔ 1955 میں ’’سخن ہائے گفتنی‘‘ کی اشاعت ہوئی۔ 1958میں ڈی پی آئی ہوگئے۔ 1959 میں ’’دوتذکرے‘‘ (تذکرہ شورش اور تذکرہ عشقی) کی جلد اول شائع ہوئی۔ 1968 میں ’’دیوان جہان‘‘ اور 1963 میں ’’عملی تنقید‘‘۔ 1963 میں ’’دوتذکرے‘‘ حصہ دوم چھپی۔ ’’42 نظمیں‘‘ 1965میں اور ’’25 نظمیں‘‘ 1966 میں زیر طبع سے آراستہ ہوئیں۔ 14؍ ستمبر 1967 میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 1967 میں بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ میں چیئرمین ہوئے۔ 1973 میں واجد علی شاہ کے خطوط بیگمات کے نام ’’تاریخ نور‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔ 1973 میں ’’غالب ایوارڈ‘‘ ملا۔ جنوری 1975 میں خودنوشت ’’اپنی تلاش میں‘‘ جلد اوّل شائع ہوئی۔ اس کے بعد دوسری جلد بھی۔ 1975 میں ’’کلیات شاد‘‘ ترتیب دے کر شائع کروائی۔ 1976 میں ’’میری تنقید: ایک باز دید‘‘ سامنے آئی۔ 1979 میں ’’اقبال: ایک مطالعہ‘‘ شائع ہوئی۔ 1980 میں بہار اردو اکادمی کے نائب صدر ہوئے۔ 1981 میں حکومت ہند نے ’’پدم شری‘‘ کا خطاب دیا۔
مندرجہ بالاتفصیلات سے تو اتنا اندازہ لگایا ہی جاسکتا ہے کہ کلیم الدین احمد زندگی بھر ادبی طور پر فعال رہے۔ ان کی کم گوئی اور مجلسی زندگی سے بیزاری انہیں تعلیم و تعلم کی طرف مبذول کئے رہی اور تصنیف وتالیف کے لئے زیادہ سے زیادہ موقع فراہم ہوتا رہا۔ لہٰذا یہ اردو ادب کے ایک ایسے نقاد ہیں جو اپنے وقت میں ہی نہیں بلکہ آج تک مسلسل تذکرے تجزیے اور مباحثے میں رہے ہیں۔ ان پر کتابیں تصنیف ہوتی رہی ہیں۔ پی۔ ایچ۔ ڈی اور ڈی لٹ کے مقالے بھی لکھے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ عظیم آباد کی تاریخ میں جو مرکزیت شادعظیم آبادی کے بعد کسی کی رہی ہے تو وہ کلیم الدین احمد ہی ہیں۔ ایک نام اور بڑھایا جاسکتا ہے اور وہ ہے قاضی عبدالودود کا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کلیم الدین احمد کے بعد عظیم آباد میں شعروادب و تنقیدوتحقیق کا ارتقائی سفر رک گیا ہے۔ وہ تو اپنی جگہ پر جاری وساری ہے۔ میری مراد بس اتنی ہے کہ شاد کے بعد قاضی عبدالودود اور کلیم الدین احمد جیسے بزرگوں کی مرکزیت پر کوئی فرق پیدا پیدا ہوا ہے۔
کلیم الدین احمد کی اکثر کتابیں نزاعی رہی ہیں۔ ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ کے سرسری مطالعے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کئی اہم شاعروں کو نہ صرف رد کردیا ہے بلکہ ایک آدھ ایسے شاعر بھی جنہیں اعلیٰ ترین منصب عطا کیا ہے۔ سامنے کی مثال نظیر اکبرآبادی کی ہے جنہیں وہ اردو شاعری کا تنہا ستارہ باور کرتے ہیں۔ میں نے ایک عرصہ پہلے ان کی تنقیدی روش کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھا تھا کہ کلیم الدین احمد صاحب ’’ورڈس آف دی پیچ‘‘ کے مطالعے کی باتیں دہراتے رہے ہیں۔ ان کی تنقید خاصی پرانی ہوچکی ہہے۔ لیکن ادھر انہوں نے مزید تنقیدی کام انجام دیئے ہیں۔ انہیں کی بنیاد پر ان کے بارے میں کچھ لکھنا ضروری ہے۔ پھر اس لیے بھی کہ ایک حد تک شمس الرحمن فاروقی یا دوسرے ایسے نقّاد جو متن اور صرف متن کو تنقید اور تحلیل کے لیے کافی سمجھتے ہیں ان کا رشتہ کسی نہ کسی سطح پر کلیم صاحب سے ملتا ہے۔ میں نے امریکی نیوکریٹی سزم سے بحث کرتے ہوئے کئی نام گنوائے تھے لیکن وہاں میں نے جان بوجھ کر اف آر لیوس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ایلیٹ کو چھوڑ دیا تھا۔ حالانکہ امریکی نئی تنقید کا ڈانڈا اف آرلیوس اور ان کے رسالے کی تنقید کا پس منظر واضح طور پر سمجھ میں آنا چاہئے۔ یہاں یہ لکھنا کافی ہوگا کہ ایلیٹ نے اپنا رسالہ ’’کرائیٹرین‘‘ 1922 میں شروع کیا تھا اور اس کی اشاعت 1939 تک ہوتی رہی۔ اس میں عملی تنقید کے نمونے تو آتے ہی تھے خود ایلیٹ بھی کبھی ایسی تنقید کا مبلغ رہا تھا۔ کہہ سکتے ہیں کہ نئی تنقید ہی کا یہ رسالہ تھا۔ ابھی یہ بند بھی نہیں ہوا تھا کہ کیمبرج سے 1923 میں سہ ماہی رسالہ ’’اسکروٹنی‘‘ لیوس کی ادارت میں شروع ہوا اور 21 برس تک اس کی اشاعت ہوتی رہی۔ اس نے متن پر خاصا زور صرف کیا ہے اور لفظوں کی سطح تک گفتگو کرنے کی تجزیاتی تنقید سامنے لائی۔ یہی وہ اسکول ہے جس سے کلیم الدین سرتاسر متاثر ہوئے۔ شاید اس امر سے بھی سبھی اتفاق کریں گے کہ ادب پارے کا تجزیہ ان کے یہاں بھی ایک فعل جراجی ہے۔ اس چیرپھاڑ سے زندہ ادب بھی مردہ ہوجاتا ہے۔ وارڈ ٹھیک ہی لکھتا ہے کہ گمراہ کن لیویسیت اس کے شاگردوں کے ذریعہ ملک اور بیرون ملک میں پھیلتی تھی سو پھیلی۔ سچ ہے کہ لیوس کے شاگردوں میں دانشور اور پروفیسر بھی ہیں جو ادب کے عملی جراحی میں بڑے شغف سے مصروف ہیں۔ یہ کام کلیم الدین احمد نے اردو ادب میں بڑے حوصلے کے ساتھ کیا۔ وارڈ اسے فیلسی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے۔ بہر طور، یہ تو وہ پس منظر ہے جو موصوف کی تنقید کی ٹریننگ سے متعلق ہے۔ ان کے تازہ تنقیدی کارناموں کی طرف آئیے تو سب سے پہلے نگاہ ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے نئے ایڈیشن پر جاتی ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ اس تنقیدی دستاویز میں دو مزید اشخاص نے بار پایا ہہے۔ ایک ہیں پروفیسر محمد حسن، جن کے بارے میں، میں اپنے خیالات قلمبند کرچکا ہوں دوسرے شمس الرحمن فاروقی ہیں جن کی بحث بھی اس کتاب میں اپنی جگہ پر آئے گی۔ دونقّاد ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں موڈریشن کا تھوڑا سا عمل ہوا ہے وہ ہیں پروفیسر آل احمد سرور اور حسن عسکری۔ پروفیسرآل احمد سرور کے بارے میں انہیں کچھ شکایتیں تھیں ان میں کچھ کا ازالہ ہوچکا ہے۔
شکایتیں یہ تھیں: وہ اپنی تنقیدوں میں تنقیدی زبان استعمال نہیں کرتے، دو ٹوک باتیں نہیں کرتے، اردو ادب کی خامیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں، وغیرہ۔ لیکن اب کلیم صاحب کو ان کے تنقیدی اسلوب میں نمایاں فرق ملتا ہے۔ اب وہ دوٹوک باتیں بھی کہتے ہیں، غزل کی خامیوں کا احساس رکھتے ہیں۔ ہر چند کہ اس کی وکالت اب بھی ان کا شعار ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ وہ پس منظر ہے جس کی تفہیم سے کلیم الدین احمد کی شاعرانہ تنقید کی روش اور ان کی تنقیدی صورتوں کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ صرف یہ لکھنا کافی نہیں ہے کہ کلیم الدین احمد مغرب زدہ ہیں۔ دراصل مغرب کے سارےاصول و نظریات سے انہیں دلچسپی نہیں رہی ہے۔ بلکہ جو محدود دائرہ ہے، جیسے کیمبرج اسکول آف کریٹی سزم کہتے ہیں وہی ان کا دائرہ عمل ہے۔
لیکن ایسے تمام امور کے بعد مجھے ایک اور نکتہ کی وضاحت کرنی ہے اور وہ یہ کلیم الدین احمد نے جان بوجھ کر باوقار صنفوں کی تکذیب کرنی چاہی۔ انہوں نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا تو اردو تنقید کو معشوق کی موہوم کمر، اردو کی اکثر باوقار تحریکوں کا بطلان کیا، نظم گوئی کی روش پر یلغار کی، اردو کے اہم شعرا اور ناقدین کی گردن مارنی چاہی، تنقید میں حالی جیسے نقّاد کے ذہن کو سطحی بتایا۔ اقبال کی شاعری کو رد کرنا چاہا، انیس کی مرثیہ گوئی کی دھجیاں اڑائیں، حسن عسکری جیسے ذی علم نقّاد کی تکذیب میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ غرض کہ وہ تمام ادبی صورتیں جو اردو میں محترم سمجھی جاتی تھیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے زد میں لانے کی کوشش کی۔ نظیراکبرآبادی ایک شاعر تھے جنہیں اب تک رد کیا جاتا تھا انہیں وہ عظمت عطا کی جو روایتی تنقید کے بالکل خلاف تھی، داستانوں کی عظمت کا احساس دلایا اور اس کے فن پر بصیرت افروز نظر ڈالی۔ غرض ایسی وہ تمام صورتیں اپنائیں جو انہیں لازماً منفرد کرتی تھیں۔ یہ ان کا جانابوجھا اور سوچاسمجھا موقف تھا۔ بعض جہات کی وجہ سے اردو تنقید کی تاریخ میں ان کی جگہ محفوظ اور محترم رہے گی لیکن ان کی وہ روش جو غلو کے مرحلے سے گزری ہے اس پر تنقید ہوتی رہے گی۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free