aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تذکرہ نگاری اردو تنقید کی ایسی ابتدائی شکل ہے۔ جس میں شعرائے اردو کے دستیاب حالات زندگی کے ساتھ اُن کے کلام سے چند منتخبہ اشعار یا کچھ حصّہ دیا جاتا تھا۔ اور کبھی کبھی تذکرہ نگار کلام پر اپنی رائے بھی قائم کر دیتا تھا۔اردو تذکروں کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان سے اردو نقادوں کو جِلا ملی ۔دراصل یہ ہماری تنقید کے ابتدائی نقوش ہیں،تذکرہ ہمارے سرمایہ ادب کا ایک گراں قدر حصّہ ہے۔ جسے نظر انداز کر کے نہ تو ہم اردو شاعری کے مطالعے ہی میں کامیاب ہو سکتے ہیں،اور نہ اپنے ادبی تنقیدی شعور کے آغاز و ارتقاء کی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے قدیم شاعروں کو انہیں تذکروں کے ذریعہ جانا اور پہچانا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری ناقدانہ بصیرت بھی انہی تذکروں کی فضا میں پروان چڑھی ہے،اردو ادب میں تذکرہ نگاری کا فروغ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اہم ترین واقعات ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔زیر نظر کتاب میں رئیس احمد نے ابتدا سے 1835 تک لکھے گئے تذکروں کے اسباب و عوامل، 1835 سے 1857 تک کے تذکراتی ادب کا مطالعہ، 1858 سے 1900 تک کے اردو شعراء کا کے تذکرے،1901 سے 1947 تک کے تذکراتی ادب ، اور 1948 کے بعد سے 1991 تک کے مرتب شدہ اردو کے شعراء کے نمائندہ تذکروں کا اس انداز میں ذکر کیا ہے، کہ تذکرہ نگاری کی پوری تاریخ قاری کےسامنے آجاتی ہے، جس کی وجہ سے تذکرہ نگاری کے حوالے سے یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے، ابواب کی تقسیم، اور مواد کی ترتیب کے پیش نظر تذکراتی ادب کی تفہیم و تحقیق میں کافی آسانی ہوگئی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets