aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یہ مختصر اور جامع مقالہ مسعود حسین خان نے اس وقت پیش کیا تھا جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں 1987 ء میں پروفیسر ایمیریٹس کا اعزاز پیش کیا ، چنانچہ مسعود حسین لنگوسٹک سوسائٹی، شعبہ لسانیات کے زیر اہتمام ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس کے افتتاحی خطبہ میں مسعود حسین خاں نے "اردو زبان، تاریخ، تشکیل، تقدیر"کے عنوان سے ایک خطبہ پیش کیا تھا، زیر تبصرہ کتاب اسی خطبہ کی کتابی شکل ہے۔اردو زبان صحیح معنوں میں ایک مخلوط زبان ہے، جیسا کہ اِس کے ایک تاریخی نام "ریختہ"سے بھی ظاہر ہے۔ یوں تو دنیا کی اکثر زبانیں دخیل الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے مخلوط کہی جا سکتی ہیں، لیکن جب کسی لسانی بنیاد پر غیر زبان کے اثرات اس درجہ نفوذ کر جاتے ہیں کہ اس کی ہیئتِ کذائی ہی بدل جائے تو وہ لسانیاتی اصطلاح میں ایک مخلوط یا ملِواں زبان کہلائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اردو کی نظیر کہیں ملتی ہے تو فارسی زبان میں ، جس کی ہند ایرانی بنیاد پر سامی النسل عربی کی کشیدہ کاری نے کلاسیکی فارسی کو جنم دیا۔ عربی کے اس عمل کی توسیع جب فارسی کے وسیلے سے تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی ایک ہند آریائی بولی، امیر خسرو کی ’’زبانِ دہلی و پَیر امنش‘‘ پر ہوتی ہے تو اردو وجود میں آتی ہے۔ اس لِسانی عمل کی توسیع کی دیگر مثالیں کشمیری، سِندھی اور مغربی پنجابی ہیں، لیکن "زبانِ دہلی" کی طرح یہ کبھی بھی کُل ہند حیثیت اختیار نہ کرسکیں، انیسویں صدی کے آغاز تک اردو زبان اپنی صوتیات، صرف ونحواور کسی حد تک لغات کے نقطۂ نظر سے ایک ایسی معیار بندی اختیار کر چکی تھی کہ سارے ہندوستان کے شعراء وادیب اس کی پیروی ضروری سمجھتے تھے۔اردو زبان تاریخ کے ایک سَیل کی رَو میں پیدا ہوئی۔
ممتاز محقق، نامور نقاد اور مشہور ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں نے اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں ان کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔
مسعود حسین خاں، وطن قائم گنج (اترپردیش) میں پیدا ہوئے اور ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور پی۔ ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ مزید تعلیم کے لئے یورپ گئے اور پیرس یونیورسٹی سے لسانیات میں ڈی۔ لٹ کی ڈگری لی۔ ہندوستان واپس آ کر آل انڈیا ریڈیو سے بہ سلسلۂ ملازمت منسلک ہوگئے۔ لیکن یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ نہیں تھا۔ اصل دلچسپی درس وتدریس سے تھی ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوشی ہو کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر ہو کر حیدرآباد چلے گئے۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات میں پہلے پروفیسر و صدر کا عہدہ سنبھالا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا (امریکہ) اور کشمیر یونیورسٹی سری نگر میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ 1973ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ وہاں سے سبکدوشی ہونے کے بعد جامعہ اردو علی گڑھ کے اعزازی وائس چانسلر اور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے پروفیسر ایمریٹس کے عہدوں پر فائز ہوئے اور علی گڑھ میں رہائش اختیار کر کے تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ علمی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ساہتیہ اکاڈمی اوارڈ 1984ء سے نوازا گیا۔
مسعود حسین خاں شاعر بھی ہیں۔ ’’روپ بنگال‘‘ اور ’’دونیم‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ’’روپ بنگال‘‘ کا ہندی میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ بکٹ کہانی، عاشورہ نامہ اور مثنوی کدم راؤ پدم راؤ سائنٹیفک اصولوں پر ترتیب دے کر انہوں نے قابل قدر خدمت انجام دی۔
حیدرآباد میں قیام کے دوران ’’قدیم اردو‘‘ کے نام سے انہوں نے ایک تحقیقی جریدہ جاری کیا تھا جس کا مقصد تھا جدید اصول کی بنیاد پر قدیم متون کی اشاعت۔ ایک لغت کی تیاری کا کام بھی انہوں نے انجام دیا۔ ’’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘‘ میں اقبال کی شاعری کا لسانیات کی روشنی میں مطالعہ کیا گیا ہے۔ شعر و زبان، اردو زبان و ادب اور اردو کا المیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ لسانیات کو یہاں بھی مرکز حیثیت حاصل ہے۔ ’’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘‘ ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔ اس میں اردو کے آغاز و ارتقا کے مسئلے پر مدلل بحث کی گئی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets