aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ان کا اصلی نام صابر محمد آبادی تھا۔ لیکن علی جواد زیدی کے نام سے مشہور ہوئے۔ والد کا نام سید امجد تھا۔ ان کا گھرانا ذی علم تھا۔ زیدی 10؍مارچ 1916ء میں کرہا ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے لیکن زیادہ ترسید باڑہ قصبہ محمد آباد، گہنہ (اعظم گڑھ) ہی میں رہے۔ ان کی تعلیم بی اے، ایل ایل بی تک تھی۔ یہ امتحانات انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے پاس کئے۔
علی جواد زیدی صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں متعدد اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد کثیر ہے۔ شاید پچاس سے کم نہیں۔ یہاں پندرہ کتابوں کی فہرست درج کر رہا ہوں:۔ (1) ’’رگ سنگ‘‘ (مجموعہ کلام، 1944) (2) ’’اردو میں قومی شاعری کے سوسال‘‘ (تحقیق اور تنقید، 1957) (3) ’’میری غزلیں‘‘ (شعری مجموعہ 1959ء) (4) ’’تعمیری ادب‘‘ (تحقیق و تنقید، 1959ء) (5) ’’دیار سحر‘‘ (مجموعہ کلام،1960ء) (6) ’’دیوان غنی کشمیری‘‘ (تحشیہ و مقدمہ، 1964ء) (7) ’’دو ادبی اسکول‘‘ (تنقید و تحقیق، 1970ء) (8) ’’تاریخ ادب اردو کی تدوین‘‘ (تنقید و تحقیق،1970ء) (9) ’’انتخاب علی جواد زیدی‘‘ (شعری مجموعہ، 1971ء) (10)’’ہندوستان میں علوم اسلامی کے مراکز‘‘ (تنقید و تحقیق، 1972ء) (11) ’’قصیدہ نگاران اترپردیش‘‘ (تنقید و تحقیق، 1974ء) (12)’’فکروریاض‘‘ (تنقید و تحقیق، 1975ء) (13) ’’نسیم دشت آرزو‘‘ (مجموعہ کلام، 1982ء) (14) ’’تیشہ آواز‘‘ (مجموعہ کلام، 1985ء) (15) ’’دہلوی مرثیہ گو‘‘، جلد اوّل (مجموعہ کلام، 1986ء)
کتابوں کی اس فہرست سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ موصوف ادبی طور پر کتنے فعال رہے ہیں اور یہ بھی کہ ایک طرف تو انہوں نے تنقیدوتحقیق کے فرائض انجام دیئے ہیں تو دوسری طرف شعروشاعری سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ لیکن متعدد مجموعۂ کلام کے باوجود ان کی شاعرانہ حیثیت کبھی نہ بن پائی اور تحقیق و تنقید کی کتابیں ان کی تخلیقی قوت سے زیادہ بااثر ثابت ہوئیں۔ دراصل علی جواد زیدی نے نہ تو کوئی شعری تجربہ کیا نہ ہی اسلوب و بیان میں جدت طرازی کی۔ حالانکہ ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک کے اسفار کے لحاظ سے بھی ان کے تجربات کو بیحد وسیع ہونا تھا لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔ دراصل زیدی کلاسیکی دائرے کو توڑ نہ سکے اس لئے ان کی شعری آواز گم سی ہوگئی۔ لیکن یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ بحیثیت ترقی پسند انہوں نے اپنی آواز کو معتدل بنانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے انقلابی نظمیں لکھیں، لیکن ان میں چیخ و پکار نہ تھی۔ ہر چند کہ ان کی بعض آزاد نظمیں اپنے زمانے میں ناقابل فراموش نہیں تھیں۔ جیسے ’’لاش‘‘ ایک اور کامیاب نظم ’’ہولی‘‘ ہے لیکن ایسی تمام ترکیفیتوں کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ زیدی ایسے شاعر ہیں جن کی صف پہلی یا دوسری ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے تحقیق و تنقید کی طرف زیادہ توجہ کرنی شروع کی لہٰذا اس ضمن میں کئی قابل لحاظ کام کئے۔ ’’دوادبی اسکول‘‘ تنقید و تحقیق کے لحاظ سے ایک اہم کتاب سمجھی جانی چاہئے۔ قومی شاعری کے باب میں بھی انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ قابل لحاظ ہے۔ علوم اسلامی کے مراکز پر بھی انہوں نے خصوصی توجہ کی اور ایک گراں قدر کتاب سامنے لائے۔ انہیں مرثیہ گویوں سے بھی دلچسپی رہی۔ لہٰذا انہوں نے دہلوی مرثیہ گویوں کے باب میں معیاری کام کیا۔ ایک اور کتاب جو توجہ طلب ہے وہ ’’قصیدہ نگاران اترپردیش‘‘ ہے۔ یہ کام بھی غیر اہم نہیں۔ زیدی نے تاریخ ادب اردو کی تدوین سے بھی دلچسپی لی ہے۔ ساہتیہ اکادمی دلّی کے لئے انہوں نے انگریزی میں تاریخ ادب اردو لکھی۔ ہر چند کہ وہ کتاب بعض اغلاط کی وجہ سے اتنی اہم نہیں سمجھی جاتی۔
بہرحال، علی جواد زیدی ہمارے اردو کے دانشوروں میں ایک مقام کے حامل ہیں اور انہیں وقار کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں 1988ء میں پدم شری کا خطاب بھی ملا تھا۔ راقم الحروف جب رانچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں صدر تھا تو موصوف پر پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ مرتب کروایا تھا جو ہنوز اشاعت سے محروم ہے۔
ذیل میں زیدی کی ایک غزل کے چند اشعار درج ہیں۔
نیا میکدے میں نظام آگیا
اٹھیں بندشیں اذن عام آگیا
نظر میں وہ کیف تمام آگیا
کہ گویا کسی کا پیام آگیا
سرراہ کانٹے بچھاتا ہے شوق
جنوں کو بھی کچھ اہتمام آگیا
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free