aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب "وحشت حیات اور فن" معید رشیدی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں وحشت کلکتوی کی زندگی اور ان کے کلام پر گفتگو ہوئی ہے۔ کتاب میں وحشت کی زندگی کے مختلف گوشوں سے واقف کرایا گیا ہے، جس کی روشنی میں ان کی ادبی خدمات بھی عیاں ہو جاتی ہیں، معاصرین کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، وحشت کی شاعری کی خوبیاں بھی ذکر کی گئی ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے، ان کی شاعری پر غالب کے اثرات کا نقشہ کھینچا گیا ہے، اور ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ محض غالب کے مقلد نہیں تھے، بلکہ جدید غزل کے تمام لوازمات ان کی شاعری میں بخوبی موجود ہیں، جدید غزل میں ان کے مقام و مرتبہ کو مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے، وحشت کی نثر نگاری پر بھی گفتگو دو ذیلی عناوین کے تحت شامل کتاب ہے، جن میں مقالہ نگاری اور مکتوب نگاری کے تناظر میں وحشت کی نثری جولانیوں کی عکاسی کی گئی ہے، کتاب کا مطالعہ وحشت کے فن سے بخوبی واقف کراتا ہے، اور انہیں محض مقلدِ غالب سمجھنے والوں کا نظریہ تبدیل کرتا ہے۔ خیال رہے کہ وحشت کا نام سید رضا علی، اور وحشت تخلص ہے۔ آپ ۱۸۸۱ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے، البتہ تقسیم کے بعد دھاکا ہجرت کرگئے، اور وہیں وہیں ۱۹۵۶ میں وفات ہوئی۔ آپ کے کلام کا پہلا مجموعہ "دیوان وحشت" ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا جس میں کچھ فارسی کلام بھی شامل تھا۔ "ترانۂ وحشت" کے نام سے مکمل کلام کا مجموعہ ۱۹۵۰ء میں چھپا۔ "نقوش وآثار" بھی ان کی تصنیف ہے۔ معید رشیدی نے اپنی اس کتاب میں وحشت کے تعلق نے مکمل معلومات تحقیقی انداز میں فراہم کردی ہیں۔
معید رشیدی کی پیدائش کانکی نارہ (شمالی کلکتہ) میں 1988 کو ہوئی ۔ وہ ہمارے عہد کے تازہ فکر شاعر ہیں۔انھوں نے جواہرلعل نہرویونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ دہلی یونیورسٹی سے ایم فل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ’جدید غزل کی شعریات‘ پرانھیں (بحیثیت استاد)پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ وہ تین سال تک آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن سے کمپیئر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ انھوں نے تین سال تک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی میں بطور رسرچ اسسٹنٹ اپنی خدمات انجام دیں۔ 2013میں انھیں ساہتیہ اکادمی (دہلی) نے نوجوان ادیب کی حیثیت سے قومی اعزاز سے نوازا۔وہ چھے کتابوں کے مصنف ہیں۔ ’تخلیق، تخئیل اور استعارہ‘ ان کی شہرت کی اصل وجہ بنی۔ مومن خاں مومن پر ان کی کتاب علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی اور یونیورسیٹیوں میں اعتبار کو پہنچی۔ریختہ فاؤنڈیشن نے ان کا شعری مجموعہ اردو(آخری کنارے پر) اور ہندی(عشق) دونوں زبانوں میں شائع کیا ہے۔وہ ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کئی مشاعروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ فی الحال وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں اور درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
معیدرشیدی کی شاعری تجربات، مشاہدات، جذبات اور احساسات کے تنوع میں ظلمت کو نور کا حوالہ بناتی ہے۔ ذات کی پیچیدگیوں میں اترکر کائنات کے رموز دریافت کرتی ہے۔ ظاہر و باطن کے امتزاج سے تخلیقی دنیا تشکیل کرتی ہے جس کی بنیاد یں لفظ اور اس کے متعلقات، معنی اور اس کے اسرار فراہم کرتے ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets