aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"یادوں کی برات" جوش ملیح آبادی کی نثری کاوشوں کا ثمرہ ہے ۔ یہ ایک عظیم شاعر انقلاب و فطرت کی خودنوشت ہے ۔ یہ آپ بیتی ایک تاریخ ساز عہد کی تہذیبی و تمدنی زندگی کا دلکش مرقع ہے ۔ اس میں وادی گنگ و جمن کے اور سرزمین دکن کے قدیم معاشرے کی خوشنما جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ مصنف نے اپنے ایام بچگی و جوانی کے خوش حال طبقوں کی سماجی قدروں پر، ان کے سوچنے اور محسوس کرنے کے انداز پر ، ان کے عقیدے اور توہمات پر ، ان کے شوق و مشغلوں پر ، ان کے تہواروں اور تقریبوں پر، ان کے رہن سہن و رسومات پر بڑے دلچسپ تبصرے کئے ہیں۔ یادوں کی برات ، جوش ملیح آبادی کے ستر سالوں کے تجربے اور مشاہدے کی برات ہے۔ اس میں فکر و نشاط اور جنون و حکمت کے زمزمے گونجتے ہیں ۔پری پیکر اور لالہ رخوں کے لب و عارض کی دلنشین حکایتیں بیان ہوتی ہیں ۔الغرض یہ کتاب ہر طریقے سے اپنی تہذیبی و تمدنی ورایات کو برقرار رکھتے ہوئے قاری کے دل کو فرحت و مسرت بخشتی ہے اور قاری اس عہد کی سیر کرتا ہوا نظر آتا ہے جس میں یہ کتاب تحریر کی گئی۔ اسے جوش ملیح آبادی کی متنازعہ تخلیق بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کتاب میں جوش کے لاتعداد معاشقوں کی وجہ سے اسے تنقید کا سامنا رہا۔ زبان پر عبور کی وجہ سے مشہور جوش نے یقینی طور پر خوبصورت اور منفرد خود نوشت سوانح عمری لکھی کہ پڑھنے والا ان کی ابتدائی زندگی کے واقعات اور ماحول کی منظر کشی میں ڈوب جاتا ہے۔ ۔ بلاشبہ، یادوں کی بارات اردو میں لکھی گئی خود نوشت سوانح عمریوں میں سب سے دلچسپ ہے۔
شبیر حسن خاں نام، پہلے شبیرؔ تخلص کرتے تھے پھر جوشؔ اختیار کیا۔ 1898 ء میں ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیرؔ، دادا محمد احمد خاں احمدؔ اور پردادا فقیر محمد خاں گویاؔ معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔ ان کا گھرانا جاگیرداروں کا گھرانا تھا۔ ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا لیکن اعلیٰ تعلیم نہ پاسکے۔ آخرکار مطالعے کا شوق ہوا اور زبان پر عبور حاصل کرلیا۔ شعر کہنے لگے تو عزیزؔ لکھنوی سے اصلاح لی۔ ملازمت کی تلاش ہوئی تو طرح طرح کی دشوایوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت مل گئی۔ کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آئے اور رسالہ ’’کلیم‘‘ جاری کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی تعلق رہا۔ سرکاری رسالہ ’آج کل‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اسی رسالہ سے وابستہ تھے کہ پاکستان چلے گئے۔ وہاں لغت سازی میں مصروف رہے۔ وہیں 1982ء میں وفات پائی۔
جوشؔ نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی اور انہیں شاعرانقلاب کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ ان کی سیاسی نظموں پر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے۔ خاص طور پر یہ بات کہی گئی کہ وہ سیاسی شعور سے محروم اور انقلاب کے مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ ان نظموں میں خطابت کے جوش کو سوا اور کچھ نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور تحریک آزادی کو فروغ دینے میں جوشؔ کی نظموں کا بڑا حصہ ہے۔
شاعر انقلاب کے علاوہ جوشؔ کی ایک حیثیت شاعر فطرت کی ہے۔ مناظر فطرت میں جوشؔ کے لئے بے حد کش ہے۔ وہ ان کی ایسی جیتی جاگتی تصویریں کھینچتے ہیں کہ میر انیس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی جوشؔ کی انقلابی شاعری کے تو قائل نہیں لیکن مناظر فطرت کی تصویر کشی میں جوشؔ نے جس مہارت کا ثبوت دیا ہے اس کے قائل ہیں۔ فرماتے ہیں ’’جوشؔ نے مناظر فطرت پر جس کثرت سے نظمیں لکھی ہیں اس کی مثال پوری اردو شاعری میں نہیں ملے گی‘‘۔ صبح و شام، برسات کی بہار، گھٹا، بدلی کا چاند، ساون کا مہینہ، گنگا کا گھاٹ، یہ تمام مناظر جوشؔ کی نظموں میں رقصاں وجولاں ہیں۔ بدلی کا چاند، البیلی صبح، تاجدار صبح، آبشار نغمہ، برسات کی چاندنی وہ زندۂ جاوید نظمیں ہیں جن کے سبب جوشؔ فطرت ہی نہیں بلکہ پیغمبر فطرت کہلائے۔
جوشؔ کی تیسری حیثیت شاعر شباب کی ہے۔ وہ عشق مجازی کے شاعر ہیں اور وصل محبوب کے طلبگار۔ ہجر کے مصائب برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ انہیں ہر اچھی صورت پسند ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک وصال میسر نہ ہو۔ ’’مہترانی‘‘ ’’مالن‘‘ اور ’’جامن والیاں‘‘ جوشؔ کی مزیدار نظمیں ہیں۔ اس قبیل کی دوسری نظموں کے نام ہیں۔ ’’اٹھتی جوانی‘‘، ’’جوانی کے دن‘‘، ’’جوانی کی رات‘‘ ’’فتنۂ خانقاہ‘‘، پہلی مفارقت‘‘ ’’جوانی کی آمد آمد‘‘، ’’جوانی کا تقاضا‘‘۔
جوشؔ کی شاعری میں سب سے زیادہ قابل توجہ چیز ہے۔ ایک دلکش اور جاندار زبان! جوشؔ کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ انہیں بجا طور پر لفظوں کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ مترنم الفاظ کے انتخاب کا انہیں بہت سلیقہ ہے۔ ان کی تشبیہوں اور استعاروں میں بے حد لطافت پائی جاتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets