aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"یہ صدی ہماری ہے"منظر بھوپالی کا غزلیہ کلام کامجموعہ ہے۔ان کی غزلیات میں نفسیاتی محرکات کا اثر نمایاں ہے۔عصر حاضر کا انسان ذہنی پیچیدگیوں اور جذباتی شکست و ریخت کی وجہ سے جس ذہنی ہیجان کا شکارہے،منظر کی غزلیں اسی ذہنی ہیجان کی عکاس ہیں۔ان کے کلام میں ایک نیا پن اور انفرادیت ہے۔وہ آب بیتی کوجگ بیتی یا کائناتی حقائق کو ذاتی بناکر اس اسلوب میں پیش کرتا ہے۔جو جمالیاتی ہوتے ہوئے بھی قابل فہم ہے۔منظر نے روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو اپنے کلام میں ایک نئے اسلوب میں پیش کیا ۔منظر بھوپالی نے زندگی اور زمانے کے ہر تجربے کو اپنی ذات کے حوالے سے قبول کیا ہے اور شعری روایات کے وسیلے سے واپس کیا ہے ،ان کے اکثر اشعار اس خصوصیت کےآئینہ دار ہیں ۔
نام سید علی رضا اور تخلص منظر ہے۔۲۹؍دسمبر ۱۹۵۹ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔بچپن بھوپال میں گزرا اور ابتدائی تعلیم وہیں پائی۔ ایم اے (اردو) تک تعلیم حاصل کی۔ شعری سلسلے کا آغاز بھوپال سے ہوا۔ رضا رام پوری سے تلمذ حاصل ہے۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، مگر دیگر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا ترنم بہت اچھا ہے ۔ انھیں کئی سرکاری اعزازات مل چکے ہیں۔ کراچی کے عالمی مشاعرے میں کئی بار شرکت کرچکے ہیں۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’یہ صدی ہماری ہے ‘‘، ’’زندگی‘‘، ’’لہورنگ موسم‘‘، ’’لاوا‘‘، ’’منظراک بلندی پر‘‘، ’’اداس کیوں ہو‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:438
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets