Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : ظ انصاری

اشاعت : 001

ناشر : آزاد کتاب گھر، دہلی

مقام اشاعت : دلی, انڈیا

سن اشاعت : 1959

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : تنقید

صفحات : 301

معاون : رحمت یوسف زئی

زبان و بیان
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

ظ انصاری کا حقیقی نام ظل حسنین نقوی تھا۔ 6؍فروری 1925ء میں سہارن پور میں پیدا ہوئے جو اترپردیش میں ہے۔ ان کا پورا خاندان مذہبی تھا اور دینی تعلیم ہی ان کے یہاں رائج تھی۔ گھریلو تعلیم کے بعد ظ انصاری مصبیہ کالج میرٹھ میں داخل کردیئے گئے۔ یہیں انہوں نے عربی اور فارسی زبانوں پر بھی دسترس حاصل کی۔ اردو سے تو شروع ہی سے لگاؤ تھا۔ لیکن وہ اپنی اس طرح کی تعلیم کو نامکمل سمجھتے رہے چنانچہ انہوں نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ کی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ایسے حالات نہیں تھے کہ سکون سے پڑھ سکتے لہٰذا اخبارات میں کام کرنے لگے۔ جب دہلی آئے تو ’’انصاری نامہ‘‘ روزانہ اخبار سے تعلق ہوگیا۔ تب مارکسزم زور پکڑ رہی تھی۔ اس زمانے کا ایک ہفتہ وار اخبار ’’قومی جنگ تھا‘‘ جسے سید سبط حسن ایڈٹ کر رہے تھے، یہ کمیونسٹ پارٹی کا اخبار تھا۔ 1946ء میں سبط حسن جب امریکہ گئے تو ظ انصاری مجلس ادارت میں آگئے۔ اس وقت تک ترقی پسندی کا بھی بڑا زورشور تھا۔ اہم شعراوادبا اسی تحریک سے وابستہ تھے۔ تب آزادی وطن کی بھی گونج تھی۔ اس میں کمیونسٹ پارٹی کا بھی خاصا دخل عمل تھا۔ اس زمانے میں ترقی پسند ادیب گرفتار ہورہے تھے۔ ظ انصاری بھی گرفتار ہوئے۔ اس زمانے میں ترقی پسندوں کی حالت کچھ ایسی نہ تھی کہ اگر وہ جیل جائیں تو ان کے بال بچوں کی خورش پورش کا انتظام ہوسکے۔ لہٰذا ظ انصاری نے گورنمنٹ سے مصالحت کے بعد جیل سے رہائی حاصل کر لی لیکن ان کے اس عمل سے ان کی پارٹی ناخوش ہوئی پھر یکسوئی سے وہ صحافت کی طرف چلے آئے اور روز نامہ ’’انقلاب‘‘ بمبئی سے بھی منسلک ہوئے۔ میرا جی، اخترالایمان اور مدھو سودن کے ساتھ ایک ادبی رسالہ ’’خیال‘‘ بھی نکالا۔ کہا جاتا ہے کہ ظ انصاری شعر کہتے تھے لیکن انہیں میرا جی نے روک دیا۔ انقلاب میں وہ مزاحیہ کالم بھی لکھتے تھے جس کی بہت پذیرائی ہوئی تھی۔ تب انہیں یہ بھی احساس ہو رہا تھا کہ ان کی تعلیم نامکمل رہ گئی لہٰذا وہ اپنے طور پر اپنی علمی استعداد بڑھاتے رہے۔ خصوصاً انگریزی پر توجہ کی اور اس زبان پر دسترس ہوگئی۔ انہوں نے برناڈشا پر معیاری کتاب قلمبند کی۔

موصوف ملک کی تقسیم کے بعد ’’شاہراہ‘‘ کی ادارت سے بھی وابستہ رہے۔ ایک زمانے میں یوسف دہلوی نے ہفتہ وار رسالہ ’’آئینہ‘‘ نکالا تو اس کی ادارت کی ذمہ داری سونپی اور واقعہ ہے کہ یہ رسالہ کم وقت میں ہندوستان گیر شہرت کا حامل ہوگیا۔ ہر شمارہ بڑی آب وتاب سے نکلتا تھا لیکن افسوس یہ کہ سلسلہ موقوف ہوا، اس لئے کہ مالی اعتبار سے اسے استحکام حاصل نہ ہوسکا۔ اب بھی ظ انصاری کی مالی حالت بہتر نہیں ہوئی۔ اب ہوا یہ کہ انہیں ماسکو سے دعوت آگئی کہ وہاں دارالترجمہ میں کام کریں۔ ظ انصاری نے روسی زبان میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے متعدد کتاب کے ترجمے کئے۔ اردو روسی لغت مرتب کی۔ ماسکو میں جو بھی انہوں نے کام کیا وہ اپنے معیار کے لحاظ سے بیحد اہم ہے۔ انہیں وہاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ملی۔ تب وہ بمبئی یونیورسٹی میں روسی زبان پڑھانے لگے۔ انہیں دنوں مولانا آزاد، غالب، میر، خسرو، اقبال اور انیس پر تحقیقی کام سر انجام دیئے۔

اوپر کی تفصیل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ظ انصاری بیک وقت مترجم، لغت نویس، محقق، صحافی اور کسی حد تک ادبی نقاد بھی رہے ہیں۔ موصوف بہت بڑے مقرر بھی تھے۔ ان کی تقریر سے لوگ بہت اثر لیتے اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جاتا۔ اگر ان کے کلام کی تفصیلات پر غور کیا جائے تویہ بات حیرت میں ڈال سکتی ہے کہ انہوں نے انگریزی، فارسی اور روسی زبانوں کی  وقت مترجم، لغت نویس، محقق، صحافی اور کسی حد تک ادبی نقاد بھی رہے ہیں۔ موصوف بہت بڑے مقرر بھی تھے۔ ان کی تقریر سے لوگ بہت اثر لیتے اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جاتا۔ اگر ان کے کلام کی تفصیلات پر غور کیا جائے تویہ بات حیرت میں ڈال سکتی ہے کہ انہوں نے انگریزی، فارسی اور روسی زبانوں کی 38 کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ کارل مارکس، اینجلس کی منتخب تصانیف بھی اردو میں شائع کیں۔ دستووسکی، چیخوف، اور پشکن کے ناول بھی ترجمہ کئے۔ جدید روسی شاعری کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔

اردو کی طرف توجہ کیجئے تو انہوں نے غالب کی فارسی مثنویوں کو اردو میں منظوم کر کے پیش کیا۔ امیر خسرو کی مثنویاں مرتب کیں۔ روسی میں ہی غالب اور امیر خسرو کے سلسلے کے دو مجموعے مرتب کئے۔ روسی کہانیوں کا ایک انتخاب بھی اردو میں ترجمہ کر کے پیش کیا۔ دوسری کتابیں جو سامنے آئیں وہ اہم ہیں مثلاً ’’مثنوی کا سفر نامہ‘‘، ’’کانٹوں کی زبان‘‘، ’’کہی ان کہی‘‘، ’’کتاب شناسی‘‘، ’’اقبال کی تلاش‘‘، ’’غالب شناسی‘‘، ’’کمیونزم اور مذہب‘‘، ’’ورق ورق‘‘ وغیرہ۔ انہوں نے ادبی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’زبان و بیان‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ کہہ سکتے ہیں ظ انصاری ایک فعال اور متحرک شخص کا نام رہا ہے۔ ان کی ایک شادی ایک ہندو خاتون سے ہوئی تھی۔ پہلی بیوی سے ان کی اولادیں ہیں دوسری سے نہیں۔ دوسری بیوی حالات کا شکار ہوگئیں۔

ظ انصاری ایک حساس اور دردمند دل رکھتے تھے۔ ان کی گفتگو میں بھی سوز تھا۔ مزارات اور امام باڑوں کی زیارت کے وقت ان پر رقت طاری ہوجاتی تھی جس کا مشاہدہ راقم الحروف نے بھی کیا ہے۔ لیکن آخری عمر میں ظ انصاری بیمار رہنے لگے اور علالت کا سلسلہ طویل رہا۔ پھر 31جنوری 1991ء میں بمبئی میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ لیکن ان کی یادیں اور ان کے کام انہیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے