aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"زرد زرخیز" زیب غوری کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ زیب غوری کے شعری اسلوب پر غالب کے اثرات نمایاں ہیں۔ خاص کر ان کے اس پہلے مجموعے کی شاعری پر غالب کے واضح اور نمایاں اثرات موجود ہیں۔ کہیں کہیں پورے مصرعے غالب کی یاد دلاتے ہیں تو کہیں لفظیات کی سطح پر اثر پذیری دیکھنے کو ملتی ہے۔ زیب کی یہ اثر پذیری نہ صرف اسلوب کی سطح پر ہے بلکہ وہ فکری اعتبار سے بھی زیادہ قریب ہیں کیونکہ غالب کی طرح زیب غوری کائنات کو ایک عاشق یا عام انسان کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ایک مفکر اور دانشور کی نگاہ سے دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے غالب کی طرح زیب غوری بھی اپنی شاعری میں تخلیق کائنات کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ وجود اور عدم کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان، اس کے وجود اور تخلیق کائنات کے ابہام کو جاننے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ دراصل زیب کی پوری شاعری انسانی زندگی کے نشیب و فراز کی شاعری ہے اور زندگی صرف عصری مسائل و موضوعات کو محیط نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا رشتہ ماضی سے بھی ہوتا ہے اسی لیے زیب کی شاعری میں موجودہ عہد کی زندگی کے آشوب کے ساتھ ساتھ ماضی کے عرفان اور اس کے شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
Zeb Ghauri was born in 1928. His poetic works 'Zarr-o-zarkhez', and 'Chaak' have been published. "Chaak' was published from Pakistan after his death.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free