Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : ضیا فتح آبادی

ناشر : ضیا فتح آبادی

سن اشاعت : 1982

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : شاعری تنقید

صفحات : 159

معاون : سندریا وگنانا کیندرم، حیدرآباد

زاویہ ہائے نگاہ
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

ضیاء فتح آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس پوری کے گھر 09 فروری 1913ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ انکے والد منشی رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک مدنی مہندس تھے۔ ضیاء نے اپنی ابتدائی تعلیم جےپور راجستھان کے مہاراجہ ہائی سکول میں حاصل کی اور اسکے بعد 1931 سے لیکر 1935 تک لاہور کے فورمین کرسچن کالج میں پڑھتے ہوئے بی اے (آنرز) (فارسی) اور ایم اے (انگریزی) کی اسناد حاصل کیں اسی دوران انکی ملاقات کرشن چندر ، ساغر نظامی ، جوش ملیح آبادی ، میراجی اور ساحر ہوشیارپوری سے ہوئی۔ ان احباب میں آپس میں ایک ایسا رشتہ قایم ہوا جو تمام عمر بخوبی نبھایا گیا۔ انہی دنوں انکے کالج میں میرا نام کی ایک بنگالی لڑکی بھی پڑھتی تھی کہتے ہیں کہ اسکے حسن کا بہت چرچا تھا۔ اسی کے نام پر ضیاء کے دوست محمد ثناءاللہ ڈار "ساحری" نے اپنا تخلص میراجی رکھا تھا۔ اسی میرا نے ضیاء پر بھی اپنا اثر چھوڑا۔
ضیاء کی اردو شاعری کا سفر انکی والدہ کی نگرانی میں مولوی اصغر علی حیاء جےپوری کی مدد سے 1925 میں شروع ہو گیا تھا اور انکا نام 1929 میں ہی ابھرنے لگا تھا۔ انکو ضیاء تخلص غلام قادر امرتسری نے عطا کیا تھا۔ 1930 میں ضیاء سیماب اکبرآبادی کے شاگرد ہوگئے تھے
ضیاء کا اولین مجموعہ کلام" طلوع " کے نام سے ساغر نظامی نے 1933 میں میرٹھ شہر سے شائع کیا تھا۔ اسکے بعد انکے مزید مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ضیاء نے افسانے بھی لکھے اور تنقیدی مضامین بھی۔ ضیاء کے نشری کارناموں میں سیماب اکبرآبادی پر لکھے گئے " ذکرِ سیماب " اور " سیماب بنام ضیاء" اہم ہیں 1951 میں ضیاء نے سیماب نام سے ایک ماہانہ رسالہ بھی شروع کیا تھا جو انکی ملازمت کی بندشوں نے سال بھر ہی چلنے دیا اور پھر بند کر دینا پڑا تھا۔ ضیاء نے ریزرو بینک آف انڈیا میں 1936 سے کام کرنا شروع کیا تھا جہاں سے 1971 میں ریٹائر ہونے کے بعد دہلی میں رہنے لگے تھے۔
ضیاء فتح آبادی کا انتقال 19 اگست 1986 کو ایک طویل علالت سہنے کے بعد دہلی کے سر گنگا رام ہسپتال میں ہوا۔ آپ نے 73برس کی عمر پائی۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے