aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"مباحثہ" پٹنہ سے شائع ہونے والا ایک دو ماہی رسالہ تھا جو بعد میں سہ ماہی اور پھر چار ماہی ہوگیا۔ اس کا پہلا شمارہ ستمبر تا اگست ۲۰۰۱ میں شائع ہوا۔ اس کے مدیر وہاب اشرفی تھے اور مالک نسیمہ اشرفی، رسالہ کی ترتیب میں ان کے ساتھ اعجاز علی راشد معاون تھے۔ ان کے بعد ہمایوں اشرف نے معاونت کی۔ ابتدا میں اس کے فی شمارہ کی قیمت ۳۰ روپے تھی اور سالانہ ۱۵۰ روپے تھا، جو بعد ازاں ۲۰۱۰ میں علی الترتیب ۵۰ روپے اور ۲۰۰ روپے ہوگئی۔ رسالہ مباحثہ کا دفتر، اینی بسنت روڈ، ۸۰۰۰۰۴ پٹنہ، بہار میں تھا، وہیں سے اس کی اشاعت ہوتی تھی۔ تقریباً ۲۰۱۱ تک یہ رسالہ پا بندی سے، وقت پر شائع ہوتا رہا، پھرغالباً۲۰۱۲ میں مدیر وہاب اشرفی کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ رسالے کی عمومی فہرست یوں تھی۔ اداریہ کے تحت وہاب اشرفی کا مضمون ہوتا تھا جو "اور یہ رسالہ" کے عنوان سے ہوتا تھا۔ اس مضمون کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اداریہ کی باتوں کے علاوہ فہرست میں موجود تمام مشمولات کا جائزہ ہوتا تھا۔ اس طرح قارئین کو ایک تعارفی مواد مل جاتا تھا کہ اس کے مشمولات کس نوعیت کے ہیں۔ اداریہ کے بعد ایک نعت ہوتی تھی جس پر چوتھے شمارے میں اعتراض کیا گیا کہ اردو جیسی سیکیولر زبان کے کسی رساے میں حمد و نعت کی اس طرح اشاعت کی جائے کہ اس کے لیے اولین صفحات استعمال کیے جائیں اور انھیں خیر و برکت کا ذریعہ سمجھا جائے درست نہیں، جس کا جواب بھی دیاگیا اور نعت سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد افکار کا گوشہ ہوتا تھا جس میں تنقیدی مضامین ہوتے۔ جیسے منیر نیازی: خزانہ اور سانپ کی حکایت، تانیثیت اور جدید اردو نظم، تہذیبی ارضیت نگار: قاضی عبدالستار، ثروت خاں کا ناول: اندھیرا پگ ایک مطالعہ وغیرہ۔ اس کے بعد زندگی کا گوشہ ہوتا جس میں ناولٹ، افسانے اور کہانیاں ہوتیں۔ پھر خصوصی مطالعے کے تحت کسی قلم کار کی تخلیق پیش کی جاتی اور اس کا جائزہ لیا جاتا۔ اس کے بعد سازِ تخلیق کا گوشہ تھا جس میں مختلف قلم کاروں کی تخلیقات ہوتیں۔ پھر "سوزِ دروں" کے تحت تقریباً ۲۵ سے ۳۰ غزلیں ہوتیں۔ اور "فکرِ تازہ" کے تحت نئے لکھنے والوں کے فن پارے ہوتے۔ اس کے بعد "میرے نقطۂ نظر سے" کے تحت کتابوں پر تبصرے ہوتے اور پھر قارئین کے تقریباً ۴۰ خطوط۔ رسالہ "مباحثہ" کا اشاعتی سفر تقریباً ایک دہائی پرمحیط رہا، اس دوران کوئی خصوصی شمارہ یا نمبر شائع نہیں ہوا۔ البتہ مباحثہ کا ادبی رویہ لچک دار ہونے کی وجہ سے تنقید در تنقید کے مباحث کو بڑا فروغ حاصل ہوا، نکتہ اور نکتہ داں کے خطوط نے رسالے کے معیار کو نہ صرف بلند کیا بلکہ صحت مند ادبی گفتگو کی راہیں ہموار کیں اور ادبی برادری کو رابطہ کا سامان فراہم کیا۔ "میرے نقطۂ نظر سے" کے گوشے کے تحت بیسویوں کتابوں پر سیر حاصل تبصروں نے مصنف اور قارئین کے درمیان خلیج کو عبور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں تو مباحثہ میں نئے اور کہنہ مشق دونوں طرح کے قلم کاروں کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں لیکن "نئی شاعری اور نئے تقاضے" کے تحت ایک مخصوص گوشہ نئے شعرا کو مختص کرنے سے نئی طرز اور جدت پسند شعرا کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ "مباحثہ" میں شائع ہونے والے اہم قلم کار درج ذیل ہیں۔ وہاب اشرفی، بلراج کومل، شکیل الرحمٰن، زاہدہ حنا، شموئل احمد، ندا فاضلی، بھگوان داس اعجاز، جگن ناتھ آزاد، مظفر حنفی، حامدی کاشمیری، مشرف عالم ذوقی، زبیر رضوی، باقر مہدی، نعمان شوق، علقمہ شبلی، ذکیہ مشہدی، عتیق اللہ، علی احمد فاطمی، جوگندر پال، شہریار، مناظر عاشق ہرگانوی، ارتضیٰ کریم، وارث علوی وغیرہ تھے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets