آ گئی دھوپ مری چھاؤں کے پیچھے پیچھے
آ گئی دھوپ مری چھاؤں کے پیچھے پیچھے
تشنگی جیسے ہو صحراؤں کے پیچھے پیچھے
نقش بنتے گئے اک پاؤں سے آگے آگے
نقش مٹتے گئے اک پاؤں کے پیچھے پیچھے
تم نے دل نگری کو اجڑا ہوا گاؤں جانا
ورنہ اک شہر تھا اس گاؤں کے پیچھے پیچھے
نیند برباد ہے خوناب ہیں آنکھیں پھر تو
گر چلوں قافیہ پیماؤں کے پیچھے پیچھے
عقل ہر خواب کی تعبیر کے پیچھے بھاگے
دل ازل ہی سے ہے آشاؤں کے پیچھے پیچھے
ان سنے ایک بلاوے نے اجاڑے آنگن
برکتیں اٹھ گئیں سب ماؤں کے پیچھے پیچھے
وسوسے روک کے بیٹھے ہیں ہمارا رستہ
حادثے ہیں کہ لگے پاؤں کے پیچھے پیچھے
ہو کے رہنا ہے کسی روز اسے بھی روشن
وہ جو اک بھید ہے ریکھاؤں کے پیچھے پیچھے
اہل دل ڈھونڈ کوئی ایسے چلے گا کب تک
اپنی بے سود تمناؤں کے پیچھے پیچھے
اپنے بڑھتے ہوئے گستاخ قدم روک رضاؔ
غوث و ابدال چلے ماؤں کے پیچھے پیچھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.