آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو
آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو
فرصت ہو تو پھر ہم کو بھی جلنے سے بچا لو
اے قسمت فردا کے خوش آیند خیالو
راتیں نہ سہی دن ہی مرے آ کے اجالو
پتھر کے صنم بھی کبھی کچھ بول سکے ہیں
اے بت شکن اذہان کے خاموش سوالو
تم میں تو مرا آہوئے خوش گام نہیں ہے
اے وادیٔ تخیل کے گم گشتہ غزالو
مٹتی ہوئی تصویر میں کیا رنگ بھرو گے
مٹنا تھا جنہیں مٹ گئے تم خود کو سنبھالو
اک درد کی دولت تمہیں ہم سونپ چلے ہیں
اب اس کو لٹا دو کہ حیات اپنی بنا لو
باد سحری پھول کھلا آئی چمن میں
کچھ تم بھی لہو اپنے شہیدوں کا اچھالو
ان راہوں میں وہ نقش کف پا تو نہیں ہے
کیوں پھوٹ کے روئے ہو یہاں پاؤں کے چھالو
چہرے پہ تھکن بالوں میں گرد آنکھوں میں سرخی
لمبا ہے سفر پاؤں کے کانٹے تو نکالو
پھر ساعت دیدار وحیدؔ آئے نہ آئے
تصویر بنا کر انہیں آنکھوں میں چھپا لو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.