آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں
آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں
کون سی شب ہے کہ گرمی اپنی محفل میں نہیں
بزم کی کثرت سے اندیشہ مرے دل میں نہیں
دل میں اس کی ہے جگہ میرے جو محفل میں نہیں
پنجۂ مژگان تر نے یہ اڑائیں دھجیاں
تار باقی ایک بھی دامان ساحل میں نہیں
خون ناحق کا ہمارے داغ مٹنے کا نہیں
تیغ میں ہوگا اگر دامان قاتل میں نہیں
پردہ دار چہرۂ یوسف نہیں ہے ہر نقاب
حسن لیلیٰ جلوہ گر ہر ایک محفل میں نہیں
نجد کا صحرا عجب صحرائے وحشت خیز ہے
قیس کیا لیلیٰ کو بھی آرام منزل میں نہیں
جس طرف جی چاہے گا میرا نکل جاؤں گا میں
سیکڑوں دروازے ہیں حلقے سلاسل میں نہیں
حد سے باہر پاؤں جو رکھتا ہے ہوتا ہے خراب
گھر میں جو راحت مسافر کو ہے منزل میں نہیں
ڈوبتے جاتے ہیں کیوں کر لوگ حیرت ہے مجھے
قد آدم آب بحر تیغ قاتل میں نہیں
ہو گیا دہشت سے ایسا بسملوں کا خون خشک
ایک بھی دھبا لہو کا تیغ قاتل میں نہیں
- کتاب : Noquush (Pg. B-384 E395)
- مطبع : Nuqoosh Press Lahore (May June 1954)
- اشاعت : May June 1954
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.