آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے
آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے
وہ گرد رہ ترک مراسم سے اٹھی ہے
صدیوں کے تسلسل میں کہیں گردش دوراں
پہلے بھی کہیں تجھ سے ملاقات ہوئی ہے
اے کرب و بلا خوش ہو نئی نسل نے اب کے
خود اپنے لہو سے تری تاریخ لکھی ہے
اس کج کلۂ عشق کو اے مشق ستم دیکھ
سر تن پہ نہیں پھر بھی وہی سرو قدی ہے
کس راہ سے تجھ تک ہو رسائی کہ ہر اک سمت
دنیا کسی دیوار کے مانند کھڑی ہے
زنداں کی فصیلیں ہوں کہ مقتل کی فضائیں
رفتار جنوں بھی کہیں روکے سے رکی ہے
جس روپ میں جب چاہے جسے ڈھال دے امیدؔ
دنیا بھی عجب کار گہہ کوزہ گری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.