آج بھی جس کی ہے امید وہ کل آئے ہوئے
آج بھی جس کی ہے امید وہ کل آئے ہوئے
ان درختوں پہ زمانہ ہوا پھل آئے ہوئے
کوئی چہرا ہے جو لگتا نہ ہو مرجھایا ہوا
کوئی پیشانی ہے جس پر نہ ہوں بل آئے ہوئے
اک نظر دیکھ لے شاید تجھے یاد آ جائیں
ہم وہی ہیں تری محفل سے نکل آئے ہوئے
جیسے ہر چیز نگاہوں میں ٹھہرنا چاہے
دیکھ لینا کبھی موسم پہ غزل آئے ہوئے
کیا گلابوں کی وہ البیلی رتیں روٹھ گئیں
ان دنوں حد نظر تک ہیں کنول آئے ہوئے
لفظ مفہوم سے بیگانہ ہیں مدت گزری
اپنے حصے میں غزل جیسی غزل آئے ہوئے
ہائے وہ لوگ جو ہر وقت نظر آتے تھے
خاک اڑائے ہوئے چہرے پہ بھی مل آئے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.