آج پھر ساقیٔ گلفام سے باتیں ہوں گی
آج پھر ساقیٔ گلفام سے باتیں ہوں گی
مے گساروں کی مئے و جام سے باتیں ہوں گی
پھر ترے عارض و گیسو کے نظارے ہوں گے
پھر نئی صبح نئی شام سے باتیں ہوں گی
ہو چکیں عیش و مسرت سے بہت کچھ باتیں
ہوں گی اب تو غم و آلام سے باتیں ہوں گی
عمر بھر کھائیں گے ہم وعدۂ فردا کا فریب
عمر بھر حسرت ناکام سے باتیں ہوں گی
ہوگی خلوت میں بھی حائل نہ خموشی مجھ کو
نقش دیوار و در و بام سے باتیں ہوں گی
گردش جام سے لب ہوں گے مرے محو کلام
جب مری گردش ایام سے باتیں ہوں گی
مرغ دل ذوق اسیری پہ ہے مائل امیدؔ
کس کی زلفوں کے حسیں دام سے باتیں ہوں گی
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 55)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.