آنکھوں میں چبھ رہی ہے گزرتی رتوں کی دھوپ
آنکھوں میں چبھ رہی ہے گزرتی رتوں کی دھوپ
جلوہ دکھائے اب تو نئے موسموں کی دھوپ
شام فراق گزرے تو سورج طلوع ہو
دل چاہتا ہے پھر سے وہی قربتوں کی دھوپ
اس میں تمازتیں بھی سہی شدتیں تو ہیں
الفت کی چھاؤں سے ہے بھلی نفرتوں کی دھوپ
میں اس کے واسطے ہوں بہاروں کی چاندنی
اس کا وجود میرے لیے سردیوں کی دھوپ
محرومیٔ وصال ہے ناصرؔ مجھے قبول
اس پر مگر پڑے نہ کبھی گردشوں کی دھوپ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.