آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے
پھرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور
کر لو موافقت کسو بے برگ و ساز سے
ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا
کوتاہی جو نہ ہووے یہ عمر دراز سے
مانند سبحہ عقدے نہ دل کے کبھو کھلے
جی اپنا کیوں کہ اچٹے نہ روزے نماز سے
کرتا ہے چھید چھید ہمارا جگر تمام
وہ دیکھنا ترا مژۂ نیم باز سے
دل پر ہو اختیار تو ہرگز نہ کریے عشق
پرہیز کریے اس مرض جاں گداز سے
آگے بچھا کے نطع کو لاتے تھے تیغ و طشت
کرتے تھے یعنی خون تو اک امتیاز سے
مانع ہوں کیوں کہ گریۂ خونیں کے عشق میں
ہے ربط خاص چشم کو افشائے راز سے
شاید شراب خانے میں شب کو رہے تھے میرؔ
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.