آپ ہی اپنا میں دشمن ہو گیا
آپ ہی اپنا میں دشمن ہو گیا
تپ گیا سونا تو کندن ہو گیا
اور نکھرا صبح کاذب کا سہاگ
ختم جب تاروں کا ایندھن ہو گیا
کس سے پوچھوں کھو گئی سیتا کہاں
بن کا ہر سایہ ہی راون ہو گیا
جب در و دیوار چمکائے گئے
گھر کا گھر ہی ان کا درپن ہو گیا
بد نصیبی قافلے کی دیکھیے
جو بنا رہبر وہ رہزن ہو گیا
وہ نہیں تو ان کا ہر لمحہ خیال
ہر نفس پر ایک الجھن ہو گیا
مانگتے پھرتے ہیں گل خاروں سے چھاؤں
کیا سے کیا دستور گلشن ہو گیا
پھر نہ بچھڑے اس طرح سے مل گئے
جیسے دو سایوں کا بندھن ہو گیا
بے خیالی میں یوں ہی پھیلا تھا ہاتھ
جب چھوا تم نے تو دامن ہو گیا
جانے کیوں گم ہو گئی برکھا کی دھوپ
رخ مرا جب سوئے چلمن ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.