آسماں مل نہ سکا دھرتی پہ آیا نہ گیا
آسماں مل نہ سکا دھرتی پہ آیا نہ گیا
زندگی ہم سے کوئی ٹھور بنایا نہ گیا
آسماں مجھ سے میاں حجرے میں لایا نہ گیا
شاعری چھوڑ دی مفہوم چرایا نہ گیا
نوکری کی، لکھی نظمیں، سکوں پایا نہ گیا
شہر دل تجھ کو کسی طور بسایا نہ گیا
گھر کی ویرانیاں رسوا ہوئیں بے کار میں ہی
مجھ سے بازار میں بھی وقت بتایا نہ گیا
جوش میں ڈھا تو دی رشتے کی عمارت لیکن
دونوں سے آج تلک ملبہ ہٹایا نہ گیا
خون کے داغ نہ آ جائیں مرے لہجے میں
اس لیے غزلوں کو اخبار بنایا نہ گیا
دکھ نہ جائے تو بچھڑتی ہوئی بس اس ڈر سے
مجھ سے آنکھوں کو کوئی خواب دکھایا نہ گیا
اپنا حصہ بھی تو مانگا ہے زمیں سے میں نے
آسماں یوں ہی مرے سر پہ گرایا نہ گیا
جو تری یاد کے پنچھی نہ رکے کیا ہے عجب
عمر بھر دل میں تو تجھ کو بھی بٹھایا نہ گیا
ذات مذہب کہ زباں نام اسی کے تو ہیں سب
خود کو جس قید سے تا عمر چھڑایا نہ گیا
خاک دریا کے کناروں کو ملاؤں گا میں
خود کو ہی آج تلک خود سے ملایا نہ گیا
میرا ایمان ہوا خرچ جسے پانے میں
کیا غضب ہوگا جو اس شے کو بچایا نہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.