اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا
اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا
محض اسیروں کی محصور زندگانی کیا
رتیں جو تو نے اتاری ہیں خوب ہوں گی مگر
ببول سیج پہ سجتی ہے گل فشانی کیا
ہے جسم ایک تضادات کے کئی خانے
کرے گا پر انہیں اک رنگ آسمانی کیا
ہزار کروٹیں جھنکار ہی سناتی ہیں
یوں جھٹپٹانے سے زنجیر ہوگی پانی کیا
زمیں کے اور تقاضے فلک کچھ اور کہے
قلم بھی چپ ہے کہ اب موڑ لے کہانی کیا
انا تو قید کی تشہیر سے گریزاں تھی
پکار اٹھی مگر میری بے زبانی کیا
میں خشک نخل سی جنگل طویل تیز ہوا
بکھیر دے گی مجھے بھی یہ بے مکانی کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.