اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے
اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے
کوئی آئے مجھے پلکوں پہ اٹھا لے جائے
خود میں جھوموں کبھی اوروں کے لیے لہراؤں
اس سے پہلے کہ ہوا میرا دیا لے جائے
ہائے وہ آنکھ کہ جو حرف سجھاتی تھی کبھی
اب سر کوئے غزل کون بلا لے جائے
اس نے چاہا بھی تو کس ظرف سے چاہا مجھ کو
جیسے سینے میں کوئی حرف دعا لے جائے
زندگی بھر کا سفر ہو گئی چاہت تیری
اب جہاں تک ترے قدموں کی صدا لے جائے
دل کو دھڑکا ہے کہ شمعیں ہی بجھی تھیں پہلے
اب کے آندھی مرا خیمہ نہ اڑا لے جائے
شوقؔ دریاؤں کا پندار نہیں تم جیسا
یہ جو بپھرے تو بھرا شہر بہا لے جائے
- کتاب : naquush (Pg. 281)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.