اگر موج ہے بیچ دھارے چلا چل
اگر موج ہے بیچ دھارے چلا چل
وگرنہ کنارے کنارے چلا چل
اسی چال سے میرے پیارے چلا چل
گزرتی ہے جیسے گزارے چلا چل
تجھے ساتھ دینا ہے بہروپیوں کا
نئے سے نیا روپ دھارے چلا چل
خدا کو نہ تکلیف دے ڈوبنے میں
کسی ناخدا کے سہارے چلا چل
پہنچ جائیں گے قبر میں پاؤں تیرے
پسارے چلا چل پسارے چلا چل
یہ اوپر کا طبقہ خلا ہی خلا ہے
ہوا و ہوس کے غبارے چلا چل
ڈبویا ہے تو نے حیا کا سفینہ
مرے دوست سینہ ابھارے چلا چل
مسلسل بتوں کی تمنا کیے جا
مسلسل خدا کو پکارے چلا چل
یہاں تو بہر حال جھکنا پڑے گا
نہیں تو کسی اور دوارے چلا چل
تجھے تو ابھی دیر تک کھیلنا ہے
اسی میں تو ہے جیت ہارے چلا چل
نہ دے فرصت دم زدن او زمانے
نئے سے نیا تیر مارے چلا چل
شب تار ہے تابہ صبح قیامت
مقدر ہے گردش ستارے چلا چل
کہاں سے چلا تھا کہاں تک چلے گا
چلا چل مسافت کے مارے چلا چل
بصیرت نہیں ہے تو سیرت بھی کیوں ہو
فقط شکل و صورت سنوارے چلا چل
حفیظؔ اس نئے دور میں تجھ کو فن کا
نشہ ہے تو پیارے اتارے چلا چل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.