اگر محبت کے مدعی ہو تو یہ رویہ روا نہیں ہے
اگر محبت کے مدعی ہو تو یہ رویہ روا نہیں ہے
جو شکوہ ہے روبرو نہیں ہے جو بات ہے برملا نہیں ہے
یہ روز تجدید عہد الفت یہ روز پیمان دل نوازی
ہزار تسلیم کر رہا ہوں مگر یقین وفا نہیں ہے
ہے تیرے کافر شباب سے خوب میری معصوم مے گساری
سرور کی ایک حد ہے قائم غرور کی انتہا نہیں ہے
عجب نہیں زحمت وفا سے مجھے کسی دن نجات دے دے
یہی مری بے زباں محبت جو در خور اعتنا نہیں ہے
نہ جانے کس کس سے دل لگا کر وفا سے مایوس ہو چکا ہوں
نظر پریشان شش جہت ہے کوئی بھی درد آشنا نہیں ہے
جتا کے مجبوریٔ محبت امید مہر و وفا کے معنی
میں خود ہوں اپنا سکون دشمن کسی کی کوئی خطا نہیں ہے
بجا بجا بے شمار عارض نظر نظر کو ترس رہے ہیں
مگر یہ دل کا معاملہ ہے نگاہ کا واسطہ نہیں ہے
- کتاب : Ghazaliyat-e-ahsaan Danish (Pg. 284)
- Author : Shabnam Parveen
- مطبع : Asghar Publishers (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.