اگر قدم ترے میکش کا لڑکھڑا جائے
اگر قدم ترے میکش کا لڑکھڑا جائے
تو شمع میکدہ کی لو بھی تھرتھرا جائے
اب اس مقام پہ لائی ہے زندگی مجھ کو
کہ چاہتا ہوں تجھے بھی بھلا دیا جائے
مجھے بھی یوں تو بڑی آرزو ہے جینے کی
مگر سوال یہ ہے کس طرح جیا جائے
غم حیات سے اتنی بھی ہے کہاں فرصت
کہ تیری یاد میں جی بھر کے رو لیا جائے
انہیں بھی بھول چکا ہوں میں اے غم دوراں
اب اس کے بعد بتا اور کیا کیا جائے
نہ جانے اب یہ مجھے کیوں خیال آتا ہے
کہ اپنے حال پہ بے ساختہ ہنسا جائے
گریز عشق سے لازم سہی مگر رفعتؔ
جو دل ہی بات نہ مانے تو کیا کیا جائے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 01.06.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.