عجب کیا ہے رہے اس پار بہتے جگنوؤں کی روشنی تحلیل کی زد میں
عجب کیا ہے رہے اس پار بہتے جگنوؤں کی روشنی تحلیل کی زد میں
ہوائے بے وطن رکھ لے طلوع مہر کا اک زائچہ زنبیل کی زد میں
غم بے چہرگی کا عکس تھا جس نے وجود سنگ کو مبہوت کر ڈالا
تراشیں سلوٹیں جوں ہی خد و خال تحیر آ گئے تشکیل کی زد میں
شب وعدہ فصیل ہجر سے آگے چمکتا ہے ترا اسم ستارہ جو
کہ جیسے کوئی پیوند ردائے صبح آ جائے کسی قندیل کی زد میں
تماشائی دریچے میں تھرکتی سرخ آنکھوں کے طلسم خواب میں گم ہیں
مگر سہمی ہوئی کٹھ پتلیوں کی زندگی ہے آخری تمثیل کی زد میں
مرے نامے تہی مضموں سہی پھر بھی تری لوح مقفل کی امانت ہیں
کبھی تو آئے گی شکل حروف نا فرستادہ خط تاویل کی زد میں
- کتاب : funoon-volume-21 (Pg. 370)
- اشاعت : 1984
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.