عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے
عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے
مرے حریف لہو کے دیئے جلائیں گے
میں تجربوں کی اذیت کسے کسے سمجھاؤں
کہ تیرے بعد بھی مجھ پر عذاب آئیں گے
بس ایک سجدۂ تعظیم کے تقابل میں
کہاں کہاں وہ جبین طلب جھکائیں گے
عطش عطش کی صدائیں اٹھی سمندر سے
تو دشت پیاس کے چشمے کہاں لگائیں گے
چھپا کے رکھ تو لیا ہے شرار بو لہبی
دھواں اٹھا تو نظر تک ملا نہ پائیں گے
دراز کرتے رہو دست حق شناس اپنا
بہت ہوا تو وہ نیزے پہ سر اٹھائیں گے
نواح لفظ و معانی میں گونج ہے کس کی
کوئی بتائے یہ امجدؔ کہ ہم بتائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.