عجیب بات تھی ہر شعر پر اثر ٹھہرا
دلچسپ معلومات
اگست 2012
عجیب بات تھی ہر شعر پر اثر ٹھہرا
میں اس کی بزم میں کل رات با ہنر ٹھہرا
ہوا جو آ کے وہ مہمان بعد مدت کے
لہوں میں رقص ہوا بام پر قمر ٹھہرا
ممانعت کا تقاضا تھا جس سے دور رہیں
چمن میں وہ ہی شجر سب سے با ثمر ٹھہرا
جنوں کی بھیک کہیں بھی نہ مل سکی اس کو
گدائے ہوش یہاں گرچہ در بہ در ٹھہرا
عجیب رقص تھا بسمل کا ہر تماشائی
تڑپ کے درد سے یکسر ہی بے خبر ٹھہرا
عقیدتوں کے دھندلکوں میں اور کیا ہوتا
ہر ایک فقرہ یہاں اس کا معتبر ٹھہرا
مجھے نہ قتل کریں بس پیام لایا ہوں
مری حقیقت ہی کیا میں تو نامہ بر ٹھہرا
سفینہ گرچہ کنارے پہ جا لگا لیکن
سوال یہ ہے ادھر ٹھہرا یا ادھر ٹھہرا
نہ جانے کتنی ہی سمتیں بلا رہی ہیں مجھے
ہر اک قدم پہ ہے مجھ کو نیا سفر ٹھہرا
نہ دیکھ پایا کوئی آنکھ بھر کے آئینہ
خود اپنا چہرہ یہاں باعث مفر ٹھہرا
ٹھہر کے جس نے بھی کچھ دیر خود کو دیکھ لیا
وہ اپنی وحشت بیجا کا چارہ گر ٹھہرا
ہے جانے کتنے ہی پردوں میں محو آرایش
جھلک بھی دیکھ لی جس نے وہ دیدہ ور ٹھہرا
ہر ایک شے سے محبت ہے بس علاج یہاں
بس ایک نسخہ یہی ہے جو کارگر ٹھہرا
شروع ہوا تھا ابھی اور قریب ختم ہے اب
یہ زندگی کا سفر کتنا مختصر ٹھہرا
- کتاب : Dawat-e-Sang (Pg. 35)
- Author : Jafar Abbas
- مطبع : Guftagu Publications (2017)
- اشاعت : 2017
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.