اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں
اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں
یا پھر آؤ مل کر ٹوٹیں اور کھنڈر ہو جائیں
ایک نام پڑھیں یوں دونوں اور دعا یوں مانگیں
یا سجدے سے سر نہ اٹھیں یا لفظ اثر ہو جائیں
خیر اور شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں
بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جائیں
ہم ازلی آوارہ جن کا گھر ہی نہیں ہے کوئی
لیکن جن رستوں سے گزریں رستے گھر ہو جائیں
ایک گنہ جو فانی کر کے چھوڑ گیا دھرتی پر
وہی گنہ دوبارہ کر لیں اور امر ہو جائیں
صوفی سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں
خود ہی اپنا رستہ منزل اور سفر ہو جائیں
رزق کی تنگی عشق کا روگ اور لوگ منافق سارے
آؤ ایسے شہر سے حیدرؔ شہر بدر ہو جائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.