اپنے بوجھ سے ٹوٹ رہا ہوں
میں بھی کانچ کا اک ٹکڑا ہوں
کوئی کہانی یاد نہیں ہے
ردی کاغذ بیچ چکا ہوں
زیست نے اپنے پر پھیلائے
ریت کے صحراؤں میں کھڑا ہوں
اپنی بات کہوں تو کیوں کر
ان کی باتوں میں الجھا ہوں
سب مٹی کے سوداگر ہیں
جن کے بھی ہاتھوں میں بکا ہوں
مجھ سے ترک تعلق کر لو
میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں
تم ہی بیچو تم ہی خریدو
سود و زیاں سے لا پروا ہوں
لاکھ سنوارو لاکھ بگاڑو
ویسا رہوں گا میں جیسا ہوں
نقطہ ایک ہوں ایرجؔ لیکن
سمتوں میں سمتوں میں بٹا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.