اپنی گمشدگی کی افواہیں میں پھیلاتا رہا
اپنی گمشدگی کی افواہیں میں پھیلاتا رہا
جو بھی خط آئے بنا کھولے ہی لوٹاتا رہا
ذہن کے جنگل میں خود کو یوں بھی بھٹکاتا رہا
الجھنیں جو تھیں نہیں ان کو ہی سلجھاتا رہا
مسکراہٹ کی بھی آخر اصلیت کھل ہی گئی
غم زمانے سے چھپانے کا مزہ جاتا رہا
اور رنگیں ہو گئی اس کے تبسم کی دھنک
عشق کا سورج حیا کی برف پگھلاتا رہا
میرا چہرہ کھو گیا چہروں کے اس بازار میں
جانے کیا کیا روپ میں دنیا کو دکھلاتا رہا
شہر کے چوراہے پر پائی تھی اس نے تربیت
عمر بھر اوروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہا
- کتاب : Namak (Pg. 78)
- Author : Subodh Saaqi
- مطبع : Arshia Publications (2016)
- اشاعت : 2016
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.