عقل دوڑائی بہت کچھ تو گماں تک پہنچے
عقل دوڑائی بہت کچھ تو گماں تک پہنچے
کچھ حقیقت بھی ہے انساں کی کہاں تک پہنچے
عشق کے شعلے بھڑک کر رگ جاں تک پہنچے
آگ سی آگ ہے یہ آگ جہاں تک پہنچے
لڑ گئی ان سے نظر کھچ گئے ابرو ان کے
معرکے عشق کے اب تیر و کماں تک پہنچے
دل سے باہر ہو ترا راز گوارا ہے کسے
یہ کوئی بات نہیں ہے کہ زباں تک پہنچے
مار لے وہ نگۂ ناز تو رتبہ ہو بلند
سر ہو اونچا مرا گر نوک سناں تک پہنچے
کوئی دیوانگئ عشق کا قصہ چھیڑے
سلسلہ اس کا خدا جانے کہاں تک پہنچے
سرخیٔ خار بیاباں یہ پتہ دیتی ہے
کہ ادھر سے ترے دیوانے یہاں تک پہنچے
رند پر کیف بہ یک گردش چشم ساقی
غایت دائرۂ کون و مکاں تک پہنچے
رخ سے پردہ کو ہٹا حسن یقیں تک پہنچا
آخر انسان ہوں یوں عقل کہاں تک پہنچے
راہ میں اور بھی دیوانوں سے ملتے جلتے
پوچھتے پوچھتے ہم ان کے مکاں تک پہنچے
شربت دید نہ ہو تیغ کا پانی ہی سہی
کوئی ٹھنڈک تو مرے قلب تپاں تک پہنچے
لے گئے عشق کی بازی پہ صفائی بیتابؔ
جان پر کھیل گئے جان جہاں تک پہنچے
- کتاب : Noquush (Pg. B-392 E402)
- مطبع : Nuqoosh Press Lahore (May June 1954)
- اشاعت : May June 1954
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.