بال بکھیرے آج پری تربت پر میرے آئے گی
بال بکھیرے آج پری تربت پر میرے آئے گی
موت بھی میری ایک تماشہ عالم کو دکھلائے گی
محو ادا ہو جاؤں گا گر وصل میں وہ شرمائے گی
بار خدایا دل کی حسرت کیسے پھر بر آئے گی
کاہیدہ ایسا ہوں میں بھی ڈھونڈا کرے نہ پائے گی
میری خاطر موت بھی میری برسوں سر ٹکرائے گی
عشق بتاں میں جب دل الجھا دین کہاں اسلام کہاں
واعظ کالی زلف کی الفت سب کو رام بنائے گی
چنگا ہوگا جب نہ مریض کاکل شب گوں حضرت سے
آپ کی الفت عیسیٰ کی اب عظمت آج مٹائے گی
بہر عیادت بھی جو نہ آئیں گے نہ ہمارے بالیں پر
برسوں میرے دل کی حسرت سر پر خاک اڑائے گی
دیکھوں گا محراب حرم یاد آئے گی ابروئے صنم
میرے جانے سے مسجد بھی بت خانہ بن جائے گی
غافل اتنا حسن پہ غرہ دھیان کدھر ہے توبہ کر
آخر اک دن صورت یہ سب مٹی میں مل جائے گی
عارف جو ہیں ان کے ہیں بس رنج و راحت ایک رساؔ
جیسے وہ گزری ہے یہ بھی کسی طرح نبھ جائے گی
- کتاب : Bhartendu Samagr (Pg. 272)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.