بارش کی رت تھی رات تھی پہلوئے یار تھا
بارش کی رت تھی رات تھی پہلوئے یار تھا
یہ بھی طلسم گردش لیل و نہار تھا
کہتے ہیں لوگ اوج پہ تھا موسم بہار
دل کہہ رہا ہے عربدۂ زلف یار تھا
اب تو وصال یار سے بہتر ہے یاد یار
میں بھی کبھی فریب نظر کا شکار تھا
تو میری زندگی سے بھی کترا کے چل دیا
تجھ کو تو میری موت پہ بھی اختیار تھا
او گانے والے ٹوٹتے تاروں کے ساز پر
میں بھی شہید طول شب انتظار تھا
پلکیں اٹھیں جھپک کے گریں پھر نہ اٹھ سکیں
یہ اعتبار ہے تو کہاں اعتبار تھا
یزداں سے بھی الجھ ہی پڑا تھا ترا ندیمؔ
یعنی ازل سے دل میں یہی خلفشار تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.