بہت سرشار تھا اپنے سراسر جوش میں دریا
بہت سرشار تھا اپنے سراسر جوش میں دریا
طمانچے موج کے کھائے تو آیا ہوش میں دریا
ڈبویا جوش وحشت میں ہمیں صحرا نوردی نے
بہایا آبلوں نے پاؤں کے پاپوش میں دریا
نہ چھیڑ اے سوزن مژگاں مرے دل کے پھپھولے کو
کہ حکمت سے کیا ہے بند اس سرپوش میں دریا
جہاز الفت دل کا نگہباں ہے خدا ہی اب
سمندر کی طرح آیا ہے غم کا جوش میں دریا
گلا کاٹا چھرے سے اپنا مژگاں کے تصور میں
بہایا شب لہو کا ہم نے بالا پوش میں دریا
بھروسا کچھ نہیں سیل فنا کی آشنائی کا
کہے ہے یہ حبابوں کے ہمیشہ گوش میں دریا
جو چھوڑیں مچھلیاں مہندی لگا کر اس نے پاؤں میں
کف پا کا پسینہ بن گیا پاپوش میں دریا
مری اشکوں کی طغیانی حیاؔ کیا سر اٹھائیں گی
سمندر سا نہاں ہے چرخ کے سرپوش میں دریا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.