بن کر لہو یقین نہ آئے تو دیکھ لیں
بن کر لہو یقین نہ آئے تو دیکھ لیں
ٹپکی ہیں پائے خواب سے صحرا کی وسعتیں
پوچھے کبھی جو آبلہ پائی کی داستاں
دریا سے کہہ بھی دیتے پہ صحرا سے کیا کہیں
چلنا ہے ساتھ ساتھ رہ زیست میں تو آؤ
نا آشنائیوں کی قبائیں اتار دیں
جس کو چھپا کے دل میں سمندر نے رکھ لیا
بادل کے منہ سے آؤ وہی داستاں سنیں
پاؤں میں کتنے تاروں کے کانٹے چبھو لیے
اس ایک آرزو میں کہ سورج سے جا ملیں
چہروں پہ چن کے پھیلے تھے قوس قزح کے رنگ
آؤ خرید لائیں کہیں سے وہ ساعتیں
بادل نے آ کے روک دیا ورنہ ایک دن
اک آگ پینے والی تھی جنگل کی الجھنیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.