بس یہ ہوا کہ رشتوں کے سب ہاتھ کٹ گئے
بس یہ ہوا کہ رشتوں کے سب ہاتھ کٹ گئے
ہم لوگ اپنے آپ ہی آپس میں بٹ گئے
آثار ممکنات تھے جتنے وہ گھٹ گئے
سورج نکل کے آیا تو کہرے بھی چھٹ گئے
یہ بزدلی تھی اپنی کہ کچھ بھی نہیں کہا
ہونے دیا جو ہونا تھا رستے سے ہٹ گئے
ان سے تو جا کے ملنا بھی دشوار ہو گیا
مصروفیت کے نام پہ ہم بھی سمٹ گئے
ہم کیا کہیں کہ کیسے حماقت یہ ہو گئی
جو تھا سبق بھلانے کا اس کو بھی رٹ گئے
دیوار و در سے اب بھی رفاقت وہی رہی
تنہائیوں میں آئے تو ان سے لپٹ گئے
خورشیدؔ اس پہ سوچئے کس کا قصور ہے
آسودگی کے لمحے بھی آ کر پلٹ گئے
- کتاب : Rifat mere khawab ki (Pg. 106)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.